حکومت مدت پوری کرے گی، اگلے الیکشن اکتوبر 2023 میں


پارلیمنٹ سے وفاقی بجٹ کی منظوری اور آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کا معاہدہ ہونے کے بعد ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت سے ملک میں فوری نئے الیکشن کی توقع رکھنے والے عمران خان اور انکے ساتھیوں کی یہ خواہش اب پوری ہوتی نظر نہیں آتی۔ باخبر ذرائع اب یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے اس حوالے سے کسی قسم کا سیاسی کردار ادا کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے لہذا موجودہ حکومت اپنی مدت مکمل کرے گی اور الیکشن اگلے سال اکتوبر میں ہی ہوں گے۔

سینئیر صحافی انصار عباسی نے سیاسی اور دفاعی حلقوں کے ساتھ ہونے والی بات چیت اور حاصل کردہ انفارمیشن کی بنیاد پر دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان میں فوری الیکشن کا امکان ختم ہو گیا ہے اور فوجی اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کا دباؤ لینے سے انکار کر دیا ہے۔ ویسے بھی عمران کو اسلیے فارغ نہیں کیا گیا تھا کہ چند ماہ بعد انہیں الیکشن کروا کر دوبارہ حکمران بنا دیا جائے۔ انصار عباسی کے مطابق، اسٹیبلشمنٹ کیخلاف جارحانہ لب و لہجے اپنانے کے باوجود عمران خان کی زیر قیادت پی ٹی آئی میں کچھ لوگ ایسے بھی موجود ہیں جو یہ سمجھتے تھے کہ فوج شہباز حکومت پر دباؤ ڈال کر جلد یا بہ دیر اپوزیشن کا فوری الیکشن کا مطالبہ پورا کروا دے گی۔ ان عناصر کو توقع تھی کہ پارلیمنٹ سے بجٹ کی منظوری اور آئی ایم ایف کا بیل آؤٹ پیکیج منظور ہونے کے بعد جلد انتخابات ممکن ہیں۔ ان کی رائے تھی کہ اسٹیبلشمنٹ رواں سال اگست تک الیکشن کی تاریخ کا اعلان کرانے کیلئے مداخلت کرے گے۔ لیکن بقول انصار عباسی، باخبر دفاعی ذرائع نے فوری الیکشن کا امکان رد کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ سے ایسی تمام تر توقعات گمراہ کن ہیں اور کبھی پوری نہیں ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ اپنے آئینی کردار کے عین مطابق اور سویلین حکومت کے ماتحت ہونے کے ناطے سے ملٹری مکمل طور پر موجودہ حکومت کی حامی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ فوج سے توقع کرتے ہیں کہ وہ سیاسی کھیل کا حصہ بن جائے گی اور سیاسی معاملات میں جانبداریت کا مظاہرہ کرے گی ان کو جان لینا چاہئے کہ فوج نے بطور ادارہ فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ سیاسی لحاظ سے غیر جانبدار رہے گی اور اس فیصلے سے ہٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دفاعی ذرائع نے کہا کہ الیکشن کب ہوں گے اس بات کا فیصلہ حکومت اور سیاسی قوتیں کریں گی، ہمارا اس معاملے سے کوئی لینا دینا نہیں۔

دوسری جانب تحریک انصاف کی قیادت اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے مابین فروغ پاتے ہوئے اعتماد کو دیکھ کر سخت پریشانی کا شکار یے کیونکہ اگر فوری الیکشن کی بس نکل گئی تو عمران خان عوامی ہمدردی کا ووٹ بھی نہیں لیں پائیں گے جس کی بنیاد پر وہ دوبارہ حکمرانی کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ پی ٹی آئی ذرائع کے مطابق اس وقت وقت پی ٹی آئی کے بمشکل ہی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ پس منظر میں کوئی روابط ہیں۔ انصار عباسی کے بقول، پارٹی کیلئے یہ صورتحال پریشان کن ہے کیونکہ ماضی میں اس نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ غیر معمولی تعلقات کے بے پناہ مزے لوٹے تھے۔ اب دونوں کے تعلقات خراب تر ہیں کیونکہ پی ٹی آئی کی جانب سے فوجی اسٹیبلشمنٹ اور اس کی قیادت کیخلاف نہ ختم ہونے والی تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان چاہتے ہیں کہ فوج سیاست میں مداخلت کرے اور موجودہ حکمران اتحاد کیخلاف اُن کا ساتھ دے۔ اسٹیبلشمنٹ ایسا کچھ نہیں کر رہی۔ دفاعی ذریعے کا کہنا تھا کہ ماضی کی غلطیاں دہرانا نہیں چاہئیں۔ تاہم، جو بات خطرناک ہونے کے ساتھ غیر متوقع بھی ہے وہ پی ٹی آئی کی فوج اور اس کی قیادت کیخلاف سوشل میڈیا مہم ہے۔

حالیہ عرصہ میں پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے فوج اور اس کی قیادت کا مذاق اڑانا بھی شروع کردیا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اس تمام مہم، تضحیک اور تمسخرات کی مانیٹرنگ کر رہی ہے لیکن تاحال کسی رد عمل کا اظہار نہیں کیا گیا۔ جیسے جیسے صورتحال بدل رہی ہے، ایسا لگتا ہے کہ عمران خان کی سیاست اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کی غیر جانبداریت نے شہباز شریف کی زیر قیادت حکومت کو مضبوط کیا ہے۔ حکومت نے بھی اب بڑے اعتماد سے یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ وہ اپنی مدت مکمل کرے گی اور الیکشن اگلے سال اکتوبر میں ہوں گے۔ بقول انصار عباسی، عمران اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ مذاکرات پر یقین نہیں رکھتے۔ عمران خان بطور وزیر اعظم اپوزیشن والوں سے ہاتھ نہیں ملاتے تھے، اور اب جبکہ کہ اپوزیشن والے حکومت میں آچکے ہیں، تو وہ ان سے مذاکرات کا ارادہ نہیں رکھتے۔ عمران خان کے اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات بھی خراب تر ہو چکے ہیں اور وہ خود بتا چکے ہیں کہ انہوں نے فوجی اسٹیبلشمنٹ کے اہم ترین کھلاڑیوں کے فون نمبرز بلاک کردیے ہیں۔ اس کے باوجود وہ نجانے کیوں یہ امید رکھتے ہیں کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ان کا جلد الیکشن کا مطالبہ مان لیں گے۔ لیکن سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں ک عمران خان کو اسلیے فارغ نہیں کیا گیا تھا کہ چند ماہ بعد الیکشن کروا کر دوبارہ حکمران بنا دیا جائے اور وہ بھی اتنی گالیاں کھانے کے بعد۔

Related Articles

Back to top button