حکومت ڈسکہ میں دوبارہ الیکشن سے اتنی خوفزدہ کیوں ہے؟


الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے ڈسکہ کے ضمنی الیکشن مییں وسیع پیمانے پر ہونے والی حکومتی دھاندلی اور لاقانونیت کی ذمے داری واضح انداز میں صوبائی انتظامیہ پر ڈالنے اور سینئیر افسران کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کے فیصلے کے بعد اب اس بات کے واضح امکانات ہیں کہ 18 مارچ کو اس حلقے سے دوبارہ الیکشن میں حکومتی امیدوار کے لیے جیتنا تقریبا ناممکن ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی حکومت نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو ماننے کی بجائے دوبارہ الیکشن کو رکوانے کے لیے عدالت کا رخ کیا ہے۔ تاہم قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کے پاس ڈسکہ میں دھاندلی کے اتنے ٹھوس شواہد ہیں کہ لاہور ہائی کورٹ کے لئے دوبارہ الیکشن کے فیصلے کو منسوخ کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ ناقدین کا کہنا یے کہ ویسے بھی الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا کر حکومت نے اپنی کمزوری ظاہر کی ہے جس سے 18 مارچ کو اس کے امیدوار کا الیکشن اور زیادہ خطرے میں پڑ گیا ہے۔
یاد رہے کہ ڈسکہ کے ضمنی الیکشن کے دوران حکومتی مشینری نے ووٹ غائب کرنے کی بجائے ووٹوں سے بھرے تھیلوں سمیت 23 پولنگ اسٹیشنز کے ریٹرننگ افسران غائب کر لیے تھے جو ساری رات ایک سیف ہاوس میں گزارنے کے بعد صبح 6 بجے برآمد ہوئے تو ان کے پاس موجود ووٹ 35 فیصد سے بڑھ کر 85 فیصد ہو چکے تھے۔ لہذا رات بھر ان 23 پولنگ افسران کو تلاش کرنے والے الیکشن کمیشن نے یہی بہتر سمجھا کہ پورے حلقے میں دوبارہ سے الیکشن کروا دیا جائے۔ ڈسکہ دھاندلی پر تبصرہ کرتے ہوئے سینئر صحافی وسعت اللہ خان کہتے ہیں کہ آج کے ڈیجیٹل دور میں انتخابی دھاندلی کی سائنس اتنی آگے جا چکی ہے کہ دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ، ہی سکہ رائج الوقت ہے۔ایسے دور میں جب ہر ووٹر کیمرے والے انٹرنیٹ موبائل فون سے مسلح ہو، حکومت نے ڈسکہ میں بیوروکریسی اور پولیس کو 70 برس پرانا متروک جھرلو تھما دیا گیا۔ ایسے میں پھر پکڑا تو جانا ہی تھا۔ اسی لیے سیانے کہتے ہیں کہ جب کسی کام کے استاد موجود ہوں تو ان سے مشورہ کیے بغیر شاگردوں کو اپنی سیان پتی نہیں دکھانا چاہیے ورنہ یہی حال ہوتا ہے۔
پاکستان میں کسی الیکشن میں دھاندلی ہونا یا دھاندلی کا الزام لگنا ہرگز نئی بات نہیں ۔انتخاب شفاف ہو کہ غیر شفاف۔ بالاخر سب ہی رو پیٹ کر اسکا نتیجہ قبول کر لیتے ہیں۔ جو قبول نہیں کرتے وہ انصاف کی دہائی دیتے ہوئے الیکشن ٹریبونل کا رخ کرتے ہیں۔ لیکن عموما الیکشن ٹریبونل کو ہرگز کسی قسم کی عجلت نہیں ہوتی اور وہ ایسے کیس سالوں تک لٹکانے رکھتا یے۔ الیکشن ٹریبونل اکثر کسی فیصلے تک پہنچنے کے لیے اس قدر غور و فکر کرتا ہے کہ نئے انتخابات سر پہ آ جاتے ہیں اور جس کے حق میں فیصلہ ہوتا ہے وہ یہی سوچتا رہ جاتا ہے کہ چار دن بعد ٹوٹنے والی اسمبلی میں جا کر حلف اٹھائے یا پھر اگلی اسمبلی کے الیکشن پر دھیان دے۔ اس ملک میں سینکڑوں ضمنی انتخابات ہوئے ہیں۔ اگر کسی حلقے میں بہت ہی زیادہ بے قاعدگی دیکھنے میں آئے تو الیکشن کمیشن بادلِ نخواستہ دوبارہ پولنگ کا بھی حکم دے دیتا ہے۔ مگر آج تک بس یہ نہیں ہوا تھا کہ الیکشن کمیشن نے اپنے اختیارات کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے انتخابی بے قاعدگی یا دھاندلی میں ملوث سرکاری مشینری کو بھی گردن سے پکڑا ہو اور ذمہ دار اہل کاروں کی اتنا کھل کے نشان دہی کی ہو۔ اس لئے الیکشن کمیشن کی جانب سے ڈسکہ میں دھاندلی کی ذمے داری واضح انداز میں صوبائی انتظامیہ پر ڈالنے اور سخت تادیبی کارروائی کو انتخابی تاریخ میں ایک اہم سنگِ میل کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ اس دھاندلی میں ملوث ہوتی تو الیکشن کمیشن کی کبھی اتنی جرات نہ ہوتی کہ وہ اس حد تک جاتا۔ دراصل فوجی اسٹیبلشمنٹ نے اپوزیشن کو ضمنی الیکشن میں کسی قسم کی دھاندلی نہ کرنے اور نیوٹرل رہنے کی یقین دہانی کروائی تھی۔ لیکن جب حکومتی ایجنسیوں نے ڈسکہ میں وسیع پیمانے پر دھاندلی اور غنڈہ گردی کی تو پھر اپنی اپوزیشن کلئیر کرنے کے لیے بھائی لوگو نے ذمہ داران کے خلاف سخت ایکشن لینے کی اجازت دے دی۔
سینئر صحافی وسعت اللہ خان بتاتے ہیں کہ پاکستان میں پہلی بڑی انتخابی دھاندلی 31 مارچ 1951 کو ہوئی جب پہلے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان نے پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ افتخار ممدوٹ کی حکومت برطرف کر کے گورنر راج لگایا اور پھر 193 ارکان پر مشتمل پنجاب اسمبلی کے انتخابات کروائے گئے۔ معزول وزیر اعلیٰ افتخار ممدوٹ اور حسین شہید سہروردی کے سیاسی اتحاد جناح عوامی لیگ کو جیت سے روکنے کے لیے صوبائی و ضلعی بیوروکریسی کا کھل کے استعمال ہوا۔ اس انتخابی عمل میں پہلی بار جھرلو کی اصطلاح زبان زدِعام ہوئی۔ جس طرح کوئی کہنہ مشق مداری بچہ جمورا کو چادر اوڑھا کر منتر پڑھتا ہوا جھرلو کہلانے والا ڈنڈہ ہوا میں پھیر کر چادر اٹھاتا ہے اور بچہ جمورا غائب ہو جاتا ہے، بالکل اسی انداز میں پاکستان بننے کے بعد پہلے صوبائی انتخابات میں جھرلو پھیر کر مخالفین کے ووٹ غائب کر دیے گئے اور حکومتی ووٹ جلسوں میں ٹھونس دیے گئے۔ ممدوٹ سہروردی اتحاد کو جھرلو کے ذریعے 32 نشستوں تک محدود کر دیا گیا اور مرکز کے منظورِ نظر میاں ممتاز دولتانہ جھرلو کے زور پر پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ بن گئے۔
جنرل ایوب کے دور میں بنیادی جمہوریت اور پھر صدارتی انتخابات میں بھی پولیس اور بیوروکریسی نے بے شرمی سے جھرلو کے کمالات دکھائے اور مادر ملت فاطمہ جناح کو شکست سے دوچار کر دیا گیا۔
اسکے بعد رفتہ رفتہ انتخابی دھاندلی ہر نئے انتخابی موسم میں ایک آرٹ میں تبدیل ہوتی گئی۔ فرسودہ جھرلو کی جگہ پولٹیکل انجینرنگ، پری پول رگنگ، سیاستدانوں کو خفیہ فائلیں دکھا کر کنگز پارٹی میں شامل کروانے کی سائنس، مردم شماری میں گھپلے کی بنیاد پر ہونے والی من پسند انتخابی حلقہ بندی اور انتخابی عمل مکمل ہونے کے بعد حکومت سازی کے لیے لگنے والی بکرا پیڑھی اور ہارس ٹریڈنگ، یہ سب دھاندلی کے نئے طریقے ہیں۔ لیکن یہ طریقے آزمانے کی اجازت صرف پاکستانی فوجی اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد سے ملتی ہے جس نے آخری مرتبہ یہ تمام نسخے عمران خان کو اقتدار ملا کر وزیراعظم بنانے کے لیے استعمال کیے تھے۔ تاہم خان صاحب نے جس کا کام اسی کو ساجھے، والا محاورہ فراموش کرتے ہوئے ڈسکہ کے الیکشن میں اپنی ایجنسیوں کے ذریعے جھرلو پھیرنے کی کوشش میں نیا طریقہ یہ آزمایا کہ الیکشن کمیشن کا سٹاف ہی غائب کر دیا۔
تاہم عمران خان کے لیے 2018 میں دھاندلی کرنے والی دوجی اسٹیبلشمنٹ نے اس حرکت کا سخت برا مناتے ہوئے اس بات کو یقینی بنایا کہ ڈسکہ میں دھاندلی کرنے والوں کو نشان عبرت بنا دیا جائے۔ اسی لیے تو سیانے کہتے ہیں کہ بڑوں کی تشریف میں نہ گھسو اور جب کسی کام کے استاد موجود ہوں تو شاگردوں کو اپنی سیان پتی نہیں دکھانی چاہیے ورنہ سو جوتوں کے علاوہ سو پیاز بھی کھانے پڑتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button