حکومت کے پاس صوبائی اسمبلیاں بچانے کا کیا فارمولا ہے؟

عمران خان کی جانب سے صوبائی اسمبلیاں توڑنے کے اعلان کے بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی قیادت سر جوڑ کر بیٹھی ہے اور دونوں اسمبلیاں کو تحلیل سے بچانے کے لئے مختلف فارمولوں پر غور کر رہی ہے، آئینی اور قانونی ماہرین سے مشاورت کے بعد اب تک یہ بات سامنے آئی ہے کہ چونکہ پنجاب اسمبلی کا اجلاس جاری ہے اس لیے نہ تو چودھری پرویزالٰہٰی کے خلاف تحریک عدم اعتماد دائر کی جا سکتی ہے اور نہ ہی گورنر پنجاب کے وزیراعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کو کہہ سکتے ہیں۔ اس صورتحال میں جو تجاویز شارٹ لسٹ ہوئی ہیں ان میں پہلی پرویزالہٰی کی ق لیگ کے 10 میں سے کم از کم چھ ارکان اسمبلی کو اپنے ساتھ ملا کر فارورڈ بلاک بنوانا ہے۔ دوسری تجویز پرویز الہٰی کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ آفر کرنا ہے جبکہ تیسری تجویز تحریک انصاف کے درجن بھر اراکین اسمبلی سے استعفے دلوانا ہے تاکہ پرویز الہٰی اپنی اکثریت کھو بیٹھیں اور اپوزیشن جماعتیں حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ جائیں، اس کے علاوہ سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ میں دائر کردہ اپیلوں اور پٹیشنز کی جلد سماعت کے لیے درخواستیں جمع کرانے کا فیصلہ بھی ہوا ہے کیونکہ ان عدالتی فیصلوں کا پنجاب اسمبلی پر براہ راست اثر پڑ سکتا ہے۔

یاد رہے کہ عمران خان کی جانب سے استعفوں کے اعلان کے بعد پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز نے پارٹی کے صوبائی اراکین اسمبلی کے اجلاس کی صدارت کی اور ’کسی بھی قیمت‘ پر اسمبلی تحلیل کرنے کا مجوزہ منصوبہ ناکام بنانے کا عہد کیا۔اجلاس میں وزیراعلیٰ پرویز الٰہٰی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے، گورنر راج کے نفاذ، گورنر کی جانب سے وزیراعلیٰ سے اعتماد کا ووٹ لینے کے امکانات پر غور کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ سے درخواست کی گئی کہ وہ وزیراعلیٰ پنجاب الیکشن کیس میں اپنے فیصلے کے خلاف حمزہ شہباز کی نظرثانی کی درخواست کی سماعت کرے۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے 26 جولائی کو تب کے پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کی طرف سے وزیراعلیٰ کے انتخاب میں دیئے گئے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا تھا، 22 جولائی کو دوست مزاری نے آئین کے آرٹیکل 63اے کے تحت مسلم لیگ(ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کے خط کا حوالہ دیتے ہوئے وزیراعلیٰ کے انتخاب کے دوران پرویز الٰہی کے حق میں مسلم لیگ(ق) کے رکن صوبائی اسمبلی کے ووٹوں کو مسترد کردیا تھا۔
ن لیگ کی رکن اسمبلی عظمیٰ بخاری کے مطابق ہم چاہتے ہیں کہ سپریم کورٹ اس درخواست کو جلد سماعت کے لیے مقرر کرے جہاں ہم عدالت کو بتائیں گے کہ عمران خان کے کہنے پر وزیراعلیٰ بغیر کسی معقول وجہ کے صوبائی اسمبلی کو تحلیل کر سکتے ہیں، عظمیٰ بخاری نے کہا کہ اپوزیشن پرویز الٰہی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لا سکتی ہے اور گورنر سے ان سے اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ سکتے ہیں، انہوں نے دعویٰ کیا کہ اسمبلی کے اجلاس کے دوران ان اختیارات کے خلاف آئین میں کوئی شق موجود نہیں تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں قانون کی غلط تشریح کی جا رہی ہے لہذا ہم مناسب وقت پر دونوں آپشنز کا استعمال کریں گے اور اجلاس میں گورنر راج کے آپشن پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا، انہوں نے مزید کہا کہ ایک شخص(عمران خان) کی خواہش پر صوبائی اسمبلی کو تحلیل نہیں کیا جا سکتا۔مسلم لیگ (ن) کے کچھ سینئر رہنماؤں نے یہ تجویز بھی پیش کی ہے کہ اگر پنجاب میں اپوزیشن عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے میں کامیاب ہوگئی یا گورنر نے وزیراعلیٰ الٰہی سے اعتماد کا ووٹ لینے کو کہا تو پیپلز پارٹی کے رہنما آصف زرداری کو موجودہ وزیراعلیٰ سے اکثریت چھیننے کے لیے پی ٹی آئی کے کم از کم 12 اراکین اسمبلی کو اس سلسلے میں اعتماد میں لینے کا کام سونپا جانا چاہئے۔

اگرچہ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے آئینی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ صوبائی اسمبلی تحلیل کرنے کیلئے کسی صوبے کا وزیراعلیٰ گورنر سے سفارش کر سکتا ہے لیکن پنجاب کی بات کی جائے تو یہ معاملہ عدالتوں تک جا سکتا ہے۔ صحافی اور وکیل منیب فاروق کا کہنا ہے کہ آئین کا آرٹیکل112؍ واضح ہے کہ کوئی وزیراعلیٰ، جس کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی ہو، گورنر کو اسمبلی تحلیل کرنے کی سفارش نہیں کر سکتا۔ پنجاب اسمبلی کے معاملے میں پرویز الٰہی کیخلاف کوئی نوٹیفکیشن جاری ہوا ہے اور نہ ان کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوئی ہے۔

سیشن کافی وقت سے جاری ہے اور چونکہ نہ قرارداد پیش ہوئی ہے اور نہ کوئی نوٹس جاری ہوا ہے تو وزیراعلیٰ کے پاس تکنیکی لحاظ سے اختیار ہے کہ وہ اسمبلی تحلیل کر دیں لیکن یہ معاملہ بالآخر عدالتوں تک جا پہنچے گا۔ انہوں نے کہا کہ عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کیلئے ضروری ہے کہ اسمبلی کا سیشن نیا ہو، نہ کہ پہلے سے جاری ہو۔ اس سے یہ ہوگا کہ اپوزیشن یہ موقف اختیار کرے گی کہ ہماری قرارداد تیار تھی لیکن چونکہ سیشن ملتوی نہیں کیا گیا اور اس خاص مقصد کیلئے نیا سیشن طلب نہیں کیا گیا اسلئے ہم عدم اعتماد کی تحریک پیش نہیں کر سکے۔ یہ بہت ہی اہم بات ہے۔ لہٰذا تکنیکی طور پر تو اسمبلی تحلیل کی جا سکتی ہے لیکن مسئلہ ہوگا، اس لئے یہ معاملہ عدالتوں تک جائے گا۔

دوسری جانب سپریم کورٹ کے وکیل سلمان راجہ کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت نہیں بلکہ صوبائی اسمبلی تحلیل ہوگی جس کے نتیجے میں صوبائی حکومت بھی تحلیل ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ اگر وزیراعلیٰ کیخلاف تحریک عدم اعتماد زیر التوا ہے تو وہ اسمبلی تحلیل نہیں کر سکتے۔ ایک ماہ میں کتنی مرتبہ تحریک عدم اعتماد پیش کی جا سکتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں سلمان راجہ نے کہا کہ ایسی کوئی پابندی نہیں ہے لیکن ماضی میں چھ ماہ میں وزیراعلیٰ کیخلاف دوسری مرتبہ عدم اعتماد پیش نہیں کی جا سکی۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے تازہ ترین فیصلوں کے بعد، پارٹی کے ارکان کو پارٹی کے فیصلوں پر عمل کرنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی صورت یہ وزیراعلیٰ کا اختیار ہے کہ وہ گورنر سے اسمبلی تحلیل کرنے کو کہیں، اور ایسی صورت میں گورنر کو یہ اقدام کرنا ہی ہوگا۔ پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب نے اتفاق کیا ہے کہ آئین میں واضح ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک زیر التوا ہو تو وزیراعلیٰ اسمبلی تحلیل نہیں کر سکتا۔ انہوں نے کہا کہ اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد آئین کے تحت 90؍ دن میں اسمبلی الیکشن کرانا ہوگا۔ ہر اسمبلی کا الیکشن علیحدہ ہوگا اور ایسی کوئی آئینی شق نہیں کہ جس کے تحت تمام اسمبلیوں کا الیکشن بیک وقت کرایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ اگر پی ٹی آئی ارکان پنجاب اور کے پی کی اسمبلیوں سے استعفیٰ دے دیں گے تو تکنیکی طور پر اسمبلیاں اپنا کام بدستور جاری رکھیں گی اور نیا وزیراعلیٰ منتخب کیا جا سکتا ہے لیکن چونکہ کے پی میں اپوزیشن کے پاس صرف 33؍ فیصد نشتیں ہیں اسلئے ایسا کرنا عجیب لگے گا، لہٰذا وہاں گورنر راج کا امکان ہے۔ پنجاب اسمبلی کی بات کی جائے تو نون لیگ اور اتحادیوں کے پاس پچاس فیصد سے کم نشستیں ہیں تو پی ٹی آئی ارکان کے استعفے کی صورت میں یہاں نسبتاً حکومت مینیج کرنا آسان ہوگا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ چونکہ دونوں صوبوں میں اسپیکرز پی ٹی آئی کے ہیں تو پارٹی ارکان کے استعفوں کی صورت میں یہ اسپیکرز استعفوں کے معاملے کو طول نہیں دیں گے جیسا کہ قومی اسمبلی کے معاملے میں ہوا تھا۔ اگر استعفے منظور ہوئے اور الیکشن کمیشن بھیج دیے گئے تو ضمنی الیکشن ناگزیر ہو جائیں گے اور اتنے بڑے پیمانے پر ضمنی الیکشن کرانا بہت مہنگا ثابت ہوگا اور سیاسی لحاظ سے بھی صورتحال باعثِ ہزیمت ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ یہ اب بھی ممکن ہے اور یہ صرف نفسیاتی جنگ ہے، دیکھنا پڑے گا کہ پہلے کون شکست تسلیم کرتا ہے۔

Related Articles

Back to top button