روپے کی تنزلی کی وجہ سے آئل سیکٹر تباہی کے دہانے پر

ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں غیرمعمولی گراوٹ سے آئل سیکٹر تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے، جبکہ گزشتہ ماہ تیل کی فروخت میں 8 فیصد ماہانہ بہتری ریکارڈ کی گئی ہے۔ملک میں پٹرول، ڈیزل اور فرنس آئل کی مجموعی فروخت جنوری میں 14 لاکھ 40 ہزار ٹن رہی جو کہ دسمبر 2022 میں 13 لاکھ 30 ہزار ٹن تھی۔موجودہ مالی سال کے پہلے 7 ماہ کے دوران یہ فروخت 19 فیصد کی کمی سے ایک کروڑ 5 لاکھ ٹن تک آ گئی جوکہ گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے دوران ایک کروڑ 30 لاکھ ٹن تھی۔

او سی اے سی نے حکومت کو مطلع کیا کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں اچانک کمی سے مجموعی طور پر اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے کیونکہ لیٹر آف کریڈٹ یعنی ایل سی کو نئے نرخوں کی بنیاد پر طے کیے جانے کا امکان ہے جبکہ متعلقہ مصنوعات پہلے ہی فروخت ہو چکی ہیں، خط میں کہا گیا کہ ان نقصانات کا اثر آئل سیکٹر کے منافع پر پڑے گا کیونکہ بعض صورتوں میں نقصان پورے سال کے منافع سے زیادہ ہو جاتا ہے۔یکم اپریل 2020 کو اقتصادی رابطہ کمیٹی کی جانب سے منظوری کے مطابق پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) کو ایل سیز کے لیے 60 روز تک کے زرمبادلہ کے نقصانات کے لیے زرتلافی کی اجازت ہے، تاہم دیگر رکن کمپنیاں پی ایس او کے ساتھ درآمدی پروفائل میں فرق کی وجہ سے اپنے تمام نقصانات  کوپورا سے قاصر ہیں۔

او سی اے سی نے اوگرا سے کہا کہ وہ فوری طور پر اس میکانزم پر نظر ثانی کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ اگر آئل سیکٹر کی عملداری اور ریٹیل آؤٹ لیٹس کو سپلائی کو یقینی بنایا جائے تو اس سیکٹر کے زرمبادلہ کے نقصانات کی مکمل تلافی ہو جائے۔او سی اے سی کے مطابق گزشتہ 18 ماہ کے دوران تیل کی قیمتوں میں اضافے اور روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے بینکنگ سیکٹر سے آئل انڈسٹری کے لیے دستیاب تجارتی مالیاتی حدیں ناکافی ہو گئی ہیں، روپےکی قدر میں حالیہ کمی کے نتیجے میں ایل سی کی حدیں راتوں رات 15 سے 20 تک کم ہوگئی ہیں۔او سی اے سی نے کہا کہ ملک میں مناسب مصنوعات کی درآمد کو یقینی بنانے کے لیے موجودہ تیل کی قیمتوں، ایکسچینج ریٹ اور ہر کمپنی کے پاس موجود حجم کے مطابق تجارتی مالیات اور ایل سی کی حد میں اضافہ کرنا ضروری ہے، بینکنگ سیکٹر سے او سی اے سی کی رکن کمپنیوں کی حد بڑھانے کی درخواست کی جائے۔

ریسرچ کے مطابق حکومت کی جانب سے رواں مالی سال کے پہلے 7 ماہ کے دوران پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی (پی ڈی ایل) کی مد میں 299 ارب روپے جمع ہونے کا امکان ہے، فی الحال حکومت پیٹرول پر پی ڈی ایل کی مد میں 50 روپے فی لیٹر اور ہائی اسپیڈ ڈیزل پر 40 روپے وصول کر رہی ہے، زیادہ سے زیادہ ممکنہ لیوی (50 روپے لیٹر) کے ساتھ بھی حکومت کے لیے بجٹ کے مطابق اپنے 855 ارب روپے کا ہدف حاصل کرنا ممکن نظر نہیں آ رہا۔آئی ایم ایف ٹیکس کی کمی کو پورا کرنے کے لیے مزید سخت اقدامات پر زور دے رہا ہے جس میں پی ڈی ایل کی حد میں اضافہ اور جنرل سیلز ٹیکس کے نفاذ جیسے اقدامات شامل ہیں۔

Related Articles

Back to top button