ساجد سدپارہ کا بھی چوٹی سر کرتے ہوئے موت سے سامنا

اپنے مرحوم والد علی سدپارہ کے نقش قدم پر چلنے والے پاکستانی کوہ پیما ساجد سدپارہ نے 27 گھنٹے بغیر سوئے اور آرام کیے نیپال میں موجود دنیا کی آٹھویں بڑی چوٹی ’مانسلو’ کو سر کر لیا ہے، لیکن علی اس لحاظ سے خوش قسمت رہے کہ چوٹی سر کرنے کے بعد واپسی کے سفر میں وہ ایک بڑا برفانی تودا گرنے سے موت کے منہ میں جانے سے بال بال بچ گئے، لیکن اسی تودے کی زد میں آ کر ان کے دو ساتھی کوہ پیما موت کی وادی میں اتر گئے۔ ساجد سدپارہ نے بتایا کہ مناسلو کی مہم جوئی کے دوران کیمپ فور سے اُوپر 60 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے تیز ہوائیں چل رہی تھیں، اس موقع پر کیمپ فور میں موجود کچھ مہم جوؤں نے فیصلہ کیا کہ وہ اس ہوا کا مقابلہ نہیں کر سکتے مگر میں نے اپنے تجربے کی بنیاد پر فیصلہ کیا کہ میں سفر جاری رکھوں گا، ویسے بھی ایک دفعہ اگر قدم بڑھ جائیں تو پھر واپسی کا فیصلہ ہمارا شیوہ نہیں ہے۔

ساجد نے نیپال میں موجود دنیا کی آٹھویں بڑی چوٹی ’مانسلو‘ کو فتح کرنے والے پہلے پاکستانی کوہ پیما کا اعزاز حاصل کیا ہے، اس چوٹی کو ساجد سدپارہ سے پہلے اُن کے والد محمد علی سدپارہ بھی سر کر چکے ہیں، گذشتہ سال ہی نیپال کے مہم جوؤں نے مناسلو کی ایک نئی چوٹی اور اس تک پہنچنے کا نیا راستہ دریافت کیا ہے جو ماضی کے بلند ترین مقام سے مزید چند میٹر اوپر ہے۔کوہ پیمائی کی دنیا میں کسی بھی چوٹی کا نیا بلند ترین مقام دریافت ہونے کے بعد ماضی کی مہمات کو منسوخ سمجھا جاتا ہے، بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انھیں کیمپ فور سے چوٹی تک پہچنے میں لگ بھگ نو گھنٹے لگے تھے، ساجد سدپارہ بتاتے ہیں کہ جب وہ کیمپ فور پر پہنچے تو وہاں پر حالات اچھے نہیں تھے، بہت تیز ہوا چل رہی تھی، ہوا کی رفتار کم از کم ساٹھ کلومیٹر فی گھنٹہ تھی، اس موقع پر کئی کوہ پیماؤں نے فیصلہ کیا کہ اس خطرناک ہوا میں مہم جوئی جاری رکھنا مناسب نہیں ہوگا اور کیمپ فور ہی میں انتظار کرنا مناسب سمجھا۔ ساجد سدپارہ کہتے ہیں کہ خطرہ تو سب ہی کے لیے ہوتا ہے مگر میں ایک پیشہ ور کوہ پیما اور تربیت یافتہ ہوں۔ مجھے اپنا کچھ اور فیصلہ کرنا تھا۔ میں نے فیصلہ کرنے میں چند لمحے لیے۔ اس موقع پر میں نے اپنے پاس موجود آلات اور سامان کو دیکھا، میرے پاس کوہ پیمائی کا جدید ترین لباس تھا، میرا جسم پوری طرح تیار تھا جس کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ میں اوپر جاؤں گا۔ ویسے بھی میرے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ میں واپسی کا سفر اختیار کرتا کیونکہ یہ میرے مزاج کے خلاف ہے۔

ساجد سدپارہ کہتے ہیں کہ میں نے ہمت کر کے مناسلو کی چوٹی کو فتح کرنے کا سفر شروع کر دیا تھا۔ ہر ایک قدم پر تیز ہوائیں روکنے کی کوشش کرتی تھیں۔ ان ہواؤں کا مقابلہ اس طرح نہیں کیا جاتا کہ آپ ان کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہو جائیں۔ یہ مقابلہ بہت طریقے سے کیا جاتا ہے۔ میں بچپن ہی سے یہ کرتا آ رہا تھا اور اسی لیے مجھے اندازہ تھا کہ اس صورتحال میں کیا کرنا چاہئے۔ سدپارہ بتاتے ہیں کہ جب میں نے سفر شروع کیا تو چوٹی کو اتنے ہی وقت میں طے کر لیا تھا جتنے وقت میں عام حالات کے اندر طے کیا جاتا ہے۔ اس کام میں میرے تقریباً آٹھ سے نو گھنٹے لگے تھے، سد پارہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے 8163 میٹر کی چوٹی 27 گھنٹوں کے اندر بغیر رُکے، سوئے اور آرام کیے سر کیا۔ انکا کہنا تھا کہ جب میں نے سفر شروع کیا تو میں بیس کیمپ ون اور ٹو پر نہیں رُکا بلکہ کیمپ تھری اور فور پر چند منٹوں کے لیے رُک کر پانی اور چائے پی۔ناِن 27 گھنٹوں کے دوران میں نے بالکل نیند نہیں کی تھی اور بغیر سوئے اپنا سفر جاری رکھا تھا۔

ساجد سد پارہ کا کہنا تھا کہ اس مہم کے دوران میں نے خود اپنا راستہ بنایا، خود ہی رسیاں لگائیں اور خود ہی اپنی ضرورت کا سامان اٹھایا، ساجد سدپارہ بتاتے ہیں کہ واپسی کے سفر کے دوران ایک برفانی تودا گرنے کا حادثہ پیش آیا جس میں ایک سری لنکن کوہ پیما کے علاوہ ایک امریکی خاتون کوہ پیما بھی ہلاک ہو گئیں، انہوں نے بتایا کہ برفانی تودا گرنے سے تمام راستے بند ہو گئے تھے اور لگائی ہوئی تمام رسیاں ختم ہو چکی تھیں۔ ساجد سدپارہ کہتے ہیں کہ واپسی کے سفر میں زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا، برفانی تودا گرنے کے بعد واپسی کا راستہ بھی خطرناک ہو چکا تھا، برف کے اندر پاؤں دھنس رہے تھے، برفانی تودا گرنے کی وجہ سے مناسلو کے حالات بھی کچھ مختلف ہو چکے تھے مگر یہ سفر مکمل کر کے اب میں بیس کیمپ میں ہوں اور اس کے بعد نیپال ہی موجود دنیا کی ساتویں چوٹی دھولگیری کو سر کرنے کے لیے روانہ ہوں گا۔ ساجد کہتے ہیں کہ مناسلو کو فتح کرتے ہوئے مجھے خوشی تھی کہ میں اپنے والد کے نقش قدم پر چل رہا ہوں، انہوں نے کہا کہ میں مناسلو کی چوٹی پر پاکستان کا پرچم لگاتے ہوئے یہ عزم کر رہا تھا کہ کوشش کروں گا کہ اپنے ملک کیلئے کوہ پیمائی کی دنیا کا ہر دستیاب اعزاز حاصل کر سکوں۔

Related Articles

Back to top button