سعودیہ کا ادھار تیل ہماری معیشت کا کیسے ستیا ناس کرے گا؟


معاشی ماہرین کے خیال میں سعودی عرب سے ادھار پر تیل حاصل ہونے سے پاکستان کو زرِمبادلہ کے ذخائر برقرار رکھنے میں مدد تو ملے گی لیکن اس طرح ملکی قرض بڑھے گا اور معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
خیال رہے کہ معاشی مشکلات کی وجہ سے پاکستان گزشتہ کئی دہائیوں سے اپنے دوست ممالک سے مؤخر ادائیگیوں پر تیل حاصل کر رہا ہے۔ پاکستان اپنی تیل کی ضرورت پوری کرنے کے لیے زیادہ تر درآمد شدہ پیٹرولیم مصنوعات پر انحصار کرتا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان سالانہ تقریباً 14 ارب ڈالر مالیت کی پیٹرولیم مصنوعات درآمد کرتا ہے۔
پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں بہتری کے اشاروں کے بعد ریاض نے اسلام آباد کو ادھار تیل کی فراہمی کی سہولت بحال کردی ہے۔ پاکستان کی حکومت نے سعودی عرب سے سالانہ ڈیڑھ ارب ڈالر مالیت کے ادھار تیل کی سہولت دوبارہ دست یاب ہونے کی تصدیق کردی ہے۔ تاہم دوسری جانب اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ ادھار پرتیل حاصل ہونے سے پاکستان کو زرِمبادلہ کے ذخائر برقرار رکھنے میں مدد تو ملے گی لیکن قرض بڑھے گا اور معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے ۔وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے ریونیو اینڈ فنانس ڈاکٹر وقار مسعود نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ تاخیری ادائیگیوں پر سعودی عرب سے سالانہ ڈیڑھ ارب ڈالر تیل کی فراہمی پراتفاق رائے ہوا ہے۔ وزارتِ خزانہ کے حکام کا کہنا ہے کہ یہ دو ممالک کے درمیان خفیہ معاملہ ہے جس کی تفصیلات سے آگاہ نہیں کیا جاسکتا۔
یاد رہے کہ گزشتہ سال سعودی عرب نے پاکستان کے ساتھ تعلقات میں گراوٹ کے باعث موخرادائیگیوں پر تیل کی فراہمی کے معاہدے پر عمل روک دیا تھا۔ سالانہ تین ارب ڈالر کے ادھار تیل کا معاہدے کے تحت سال 2020-2019 کے مالی سال میں پاکستان نے صرف پونے دو ارب ڈالر کی سہولت حاصل کی تھی۔سعودی عرب نے 2018 کے آخر میں پاکستان کو چھ ارب 20 کروڑ ڈالر کا مالی پیکیج دیا تھا جس میں تین ارب ڈالر کی نقد امداد اور تین ارب 20 کروڑ ڈالرز کی سالانہ تیل و گیس کی موخرادائیگیوں کی سہولت شامل تھی۔ معاون خصوصی ڈاکٹر وقار مسعود نے 2018 میں سالانہ تین ارب ڈالر کے ادھار تیل کی فراہمی کے معاہدے کو ڈیڑھ ارب ڈالر تک محدود کرنے کے اسباب بتانے سے بھی معذرت کی ہے۔ حکومت نے حال ہی میں پیش کردہ بجٹ میں 6 کھرب 10 ارب روپے پٹرولیم لیوی کی مد میں جمع کرنے کا ہدف رکھا تھا جسے پر تنقید بھی ہوئی۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے پروگرام کو جاری رکھنے کے لیے زرِمبادلہ کے ذخائر مستحکم اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو محدود رکھنا ضروری ہے جس کے لیے دوست ممالک سے ادھار کا حصول آئی ایم ایف معاہدے کے مطابق ہے۔ معاشی ماہر ڈاکٹر اکرام الحق کہتے ہیں کہ مؤخر ادائیگیوں پرتیل کے حصول سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم رکھنے میں وقتی طور پر مدد ملے گی لیکن اس سے تیل کی قیمت یا ٹیکس کی وصولی پر کوئی اثر نہیں ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان سالانہ21 سے 22 ارب ڈالر کا تیل درآمد کررہا ہے جس سے زرِمبادلہ کے ذخائر کی کم سے کم حد تک برقرار رکھنا مشکل ہورہا ہے۔ اسی لیے حکومت ادھار پر تیل حاصل کررہی ہے۔ اکرام الحق کہتے ہیں کہ ادھار تیل کے حصول سے معیشت کو کوئی فایدہ نہیں ہوگا بلکہ مستقبل میں اس کا نقصان ہوگا کیونکہ یہ اس سے قرض کی صورت میں خسارے میں اضافہ کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ ایسے معاہدے پائیدار نہیں ہوتے بلکہ جیو پولیٹیکل ضروریات کے تحت ’کچھ لو کچھ دو‘ کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ برس سعودی عرب نے ادھار تیل فراہم نہیں کیا تب بھی حکومت نے صورتِ حال کو سنبھال لیا تھا اب دوبارہ مشکل صورتِ حال پیدا نہیں کرنی چاہیے۔
واضح رہے کہ پاکستان کو غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر کی کم سے کم حد برقرار رکھنے میں مشکلات کا سامنا ہے جو کہ زیادہ تر غیر ملکی قرض سے حاصل کیے گئے ہیں۔ بعض ماہرین کہتے ہیں کہ سعودی عرب سے ادھار تیل کے حصول کے معاہدے سے زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ کم ہوگا اور اس سہولت کی موجودگی میں ڈیڑھ سے دو ارب ڈالر پاکستان کے اکاؤنٹ سے نہیں نکلیں گے۔ اس طرح آئی ایم ایف پروگرام کے تحت پاکستان کو ڈیڑھ دو ارب ڈالر کا فنانسنگ گیپ کا سامنا تھا جو اس سہولت سے پورا ہوجائے گا۔ ادائیگیوں کے توازن کے حوالے سے یہ پاکستان کے لیے ایک اعتبارسے مثبت پیش رفت ہے۔

Related Articles

Back to top button