سلیم صافی نے عمران کو نئے الیکشن کا کیا فارمولا دیا ہے؟


معروف اینکر پرسن اور صحافی سلیم صافی نے عمران خان کو مشورہ دیا ہے کہ اگر ان کا بنیادی مقصد واقعی نیا الیکشن کروانا ہے تو سب سے پہلے وہ خیبر پختونخوا اسمبلی توڑیں اور اپنے ساتھیوں سمیت سپیکر قومی اسمبلی کو اپنے استعفوں کی تصدیق کروا دیں۔ اسکے بعد پی ٹی آئی کے ارکان پنجاب، سندھ اور بلوچستان اسمبلیوں سے بھی مستعفی ہوجائیں۔ ایسا ہوا تو حکومت کے پاس نئے الیکشن کرانے کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں ہوگا۔ لیکن نہ جانے کیوں عمران اس آپشن کی بجائے بہانے پر تلے بیٹھے ہیں۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں سلیم صافی کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے غبارے میں ہوا بھرنےاور عمران کو متبادل قیادت کے طور پر پیش کرنے کا پروجیکٹ پورے زوروشور سے تب شروع ہوا جب پیپلز پارٹی اقتدار میں تھی۔ 2013 کے انتخابات میں عمران کے وزیر اعظم بننے کا خواب پورا نہ ہوا تو انہوں نے انتخابی نتائج تسلیم کرنے سے انکار کردیا حالانکہ بعد میں عدالتی کمیشن نے اس الیکشن کو مجموعی طور پر شفاف قرار دیا تھا۔ نواز شریف حکومت نے پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی شروع کی تو لندن پلان کے تحت طاہر القادری اور چوہدری برادران کو ساتھ ملا کر اسلام آباد میں دھرنوں کا منصوبہ تیار کیا گیا ۔ تب عمران نے اعلان کیا تھا کہ انہوں نے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان سے وعدہ کیا ہے کہ وہ آبپارہ سے آگے نہیں جائیں گے لیکن ایک دن اچانک وعدہ خلافی کرکے ڈی چوک کی طرف چل پڑے۔اس عمل میں کئی لوگ زخمی ہوئے۔ پولیس کو مارا گیا۔ جیو کے دفتر پر روز پتھرائو ہوتا رہا۔ پولیس بے بس اس لئے تھی کہ عمران کو درپردہ اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی حاصل تھی۔ یہاں عمران نے سول نافرمانی کا اعلان کیا اور بجلی کے بل جلائے۔ ڈی چوک میں قبریں کھودی گئیں۔ سپریم کورٹ کی عمارت کی بے حرمتی کی گئی۔ پارلیمنٹ اور پی ٹی وی پر چڑھائی کی گئی۔ نواز شریف کی حکومت تو ختم نہ ہوسکی لیکن اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اس کا تنائو ان دھرنوں کی وجہ سے مزید بڑھ گیا کیونکہ نواز شریف کے پاس فائلوں کاانبار پڑا تھا جس میں خفیہ اداروں کی طرف سے دھرنے کی پشت پناہی کے شواہد تھے۔

سلیم صافی بتاتے ہیں کہ ان دھرنوں سے جنم لینے والے تنائو نے بعد میں ٹکرائو کی شکل اختیار کی اور ڈان لیکس کے بعد ٹویٹ کے معاملے سے نواز شریف کی رخصتی کا عمل شروع ہوا۔ انہیں پاناما کی آڑ میں رخصت کیا گیا لیکن جب شاہد خاقان عباسی وزیر اعظم بنے تو شیخ رشید اور عمران کی اخلاقی سپورٹ سے تحریک لبیک کو ان کے خلاف اتارا گیا۔ اس کے بارے میں سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تو جسٹس فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ کا جینا حرام کروا دیا گیا۔ پھر 2018 کے الیکشن کامرحلہ آیا۔ انتخابات سے قبل نیب، میڈیا اور عدالتوں کو بے دریغ استعمال کرکے مسلم لیگ(ن) اور عمران مخالف جماعتوں کے رہنمائوں کو جیلوں میں ڈالا گیا ۔

ان دنوں رات کو عدالتوں کے کھلنے کی بڑی بات کی جاتی ہے لیکن لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ شیخ رشید کو جتوانے کے لئے حنیف عباسی کی تاریخ آگے لاکر انہیں رات گئے سزا سنائی گئی تھی۔ پھر انتخابی مہم اس انداز میں چلی کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی وغیرہ کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے جبکہ پی ٹی آئی کو آزاد چھوڑدیا گیا تھا۔ اس کے باوجود کام نہیں چلا تو آر ٹی ایس سسٹم فیل کروایا گیا۔ ووٹوں کی گنتی کے وقت پولنگ ایجنٹوں کو باہر نکال کر ٹھپے لگائے گئے۔ سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کا کیس اس کی کلاسیک مثال ہے۔ وہ عملا ًتیسرے نمبر پر آئے تھے لیکن الیکشن ٹربیونل کے فیصلے کے مطابق ان کے حق میں پچاس ہزار سے زائد بوگس ووٹ ڈالے گئے جس کی خود پی ٹی آئی کے بلوچستان اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر بھی گواہی دے چکے ہیں۔ افسوسناک طور پر اس پورے عمل میں فوج اور اس کے اداروں کو بری طرح ملوث کیا گیا۔

صافی بتاتے ہیں کہ مثلاً جب میں نے الیکشن ٹرانسمیشن میں پولنگ ایجنٹوں کو نکالنے کے شواہد پیش کرنے شروع کئے تو آئی ایس پی آر کے دبائو پر مجھے جیو کی ٹرانسمیشن سے باہر نکال دیا گیا۔ اس کے باوجود پنجاب اور مرکز میں پی ٹی آئی کو واضح اکثریت نہ ملی تو پنجاب اور مرکز میں کئی ممبران کو وفاداری بدلنے پر مجبور کیا گیا۔ اسی طرح ایم کیو ایم کو فوجی اسٹیبلشمنٹ کے دبائو پر حکومت کے ساتھ بیساکھی کے طور پر بٹھایا گیا۔ ہر کوئی جانتا تھاکہ عمران خان کی حکومت اسٹیبلشمنٹ کی بیساکھیوں کے سہارے قائم ہے چنانچہ عمران حکومت کی وجہ سے فوج بدنام ہوتی رہی۔

سلیم صافی کہتے ہیں کہ تب فوج کے وقار کو کافی نقصان پہنچا جب آصف غفور نے میڈیا کو کہا کہ وہ عمران حکومت کے بارے میں منفی رپورٹنگ نہ کرے۔ اس دوران عمران حکومت نے معیشت کا ستیاناس کیا۔ اپوزیشن کو ساتھ چلانے کی بجائے بدترین انتقام سے کام لیا گیا۔ خارجہ محاذ پر پاکستان کا کوئی دوست نہ چھوڑا گیا۔ چنانچہ اسٹیبلشمنٹ کو یہ احساس ہوا کہ نہ صرف پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ عمران حکومت کی غیرآئینی سپورٹ سے اس کی ساکھ بھی بری طرح متاثر ہورہی ہے چنانچہ انہوں نے خود کو آئینی کردار تک محدود کر کے نیوٹرل ہو جانے کا فیصلہ کیا۔ اب چونکہ عمران حکومت ان غیرقانونی بیساکھیوں کے سہارے کھڑی تھی، وہ ہٹیں تو حکومت دھڑام سے گر گئی۔ پہلے تو عمران نے اسٹیبلشمنٹ پر مختلف طریقوں سے دبائو ڈال کر یہ کوشش کی کہ وہ دوبارہ جانبدار ہوکر ماضی کی طرح غیرآئینی طور پر ان کو سپورٹ کرے لیکن جب انہوں نے استقامت دکھا کر نیوٹرل رہنے کا فیصلہ برقرار رکھا تو عمران نے حسب عادت اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کی کال دے دی۔

ساتھ پہلے سے اعلان کیا کہ یہ خونی مارچ ہوگا۔ دوسری طرف تذبذب کا شکار حکومت مارچ کی دھمکی کے جواب میں ڈٹ گئی اور یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنا وقت پورا کرے گی۔ چنانچہ اب عمران اور ان کے اہم رہنما خیبر پختونخوا حکومت کے وسائل کے ساتھ اسلام آباد پر حملہ آور ہورہے ہیں اور دوسری طرف حکومت نے سختی سے پیش آنے کا فیصلہ کیا ہے۔ عمران کے یوتھیے ساتھی پہلے سے کہہ چکے ہیں کہ یہ خونی مارچ ہو گا جس کا بڑا ثبوت لاہور میں ایک پولیس کانسٹیبل کا بہیمانہ قتل ہے۔

تاہم سلیم صافی کہتے ہیں کہ اگر عمران کا بنیادی مقصد واقعی نیا الیکشن کروانا ہے تو سب سے پہلے وہ خیبر پختونخوا اسمبلی توڑیں اور اپنے ساتھیوں سمیت سپیکر قومی اسمبلی کو اپنے استعفوں کی تصدیق کروا دیں۔ اسکے بعد پی ٹی آئی کے ارکان پنجاب، سندھ اور بلوچستان اسمبلیوں سے بھی مستعفی ہوجائیں۔ ایسا ہوا تو حکومت کے پاس نئے الیکشن کرانے کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں ہوگا۔ لیکن نہ جانے کیوں عمران اس آپشن پر عمل کرنے کی بجائے بہانے پر تلے بیٹھے ہیں۔

Related Articles

Back to top button