شہزاد اکبر کا ملک ریاض کو 460 ارب کا فائدہ پہنچانے کا دفاع

بحریہ ٹاؤن کے کرتا دھرتا ملک ریاض حسین کو 460 ارب روپے کا فائدہ پہنچانے کے الزام کا سامنا کرنے والے سابق مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر نے اپنے اقدام کا دفاع کرتے ہوئے نیب کا دائرہ اختیار چیلنج کر دیا ہے۔ احتساب سے بچنے کے لیے ملک سے فرار ہو جانے والے عمران خان کے بھگوڑے ساتھی کا کہنا ہے کہ نیب نے سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے ایک سول سیٹلمینٹ کیس کی انکوائری شروع کی ہے جس میں وفاقی حکومت کبھی فریق ہی نہیں تھی۔ شہزاد اکبر نے مزید کہا ہے کہ ملک ریاض کے ساتھ 14 کروڑ پاؤنڈز کے تصفیے کی ڈیل خفیہ رکھنا حکومت پاکستان کی مجبوری تھی چونکہ یہ مطالبہ برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے کیا تھا۔
سابق وزیراعظم عمران خان کے معاون برائے احتساب مرزا شہزاد اکبر نے نیب کی جانب سے اس کیس میں تفتیش شروع ہونے کے بعد اپنا دفاع کرتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی یعنی این سی اے کی ضرورت کے مطابق پی ٹی آئی کی کابینہ نے پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض سے ضبط کیے گئے 14 کروڑ پاؤنڈز کے تصفیے کو خفیہ رکھنے کی منظوری دی تھی۔ شہزاد اکبر نے یہ دعوی اس دائر کردہ درخواست میں کیا ہے جس میں اس نے قومی احتساب بیورو کی جانب سے مذکورہ تصفیے کے سلسلے میں جاری کردہ کال اپ نوٹس کے جواب میں پاکستان ہائی کمیشن، لندن سے ویڈیو لنک کے ذریعے گواہی دینے کی اجازت طلب کی ہے اور اپنا نام نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکالنے کی درخواست کی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس ارباب محمد طاہر پر مشتمل ڈویژن بینچ نے اگلے روز اس درخواست پر سماعت کی اور نیب اور وفاقی حکومت کو نوٹسز جاری کر دیئے۔
یاد رہے کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے اپریل میں سابق نیب چیئرمین جاوید اقبال سے پراپرٹی ٹائیکون کو ‘بلا جواز فیور’ دینے پر سخت سوالات کیے تھے اور انہیں این سی اے کی جانب سے پاکستان کو واپس کیے گئے 14 کروڑ پاؤنڈز میں سے 460 ارب روپے جرمانہ ادا کرنے کی ڈیل بارے بھی خریدا تھا۔ یہ جرمانہ 2019 میں کراچی کے سپر ہائی وے پر قائم کیے گئئے ملک ریاض کے ہاؤسنگ پروجیکٹ سے متعلق تھا۔ نیب کے ریکارڈ کے مطابق نومبر 2019 میں لندن میں ملک ریاض فیملی سے برآمد ہونے والی رقم تقریباً 14 کروڑ پاؤنڈز تھی۔ یہ سب کچھ سپریم کورٹ کے زیر انتظام اکاؤنٹ میں منتقل کیا گیا، تصفیے کی مکمل مالیت 19 کروڑ پاؤنڈز میں سے این سی اے نے 14 کروڑ پاؤنڈز واپس ٹرانسفر کردیے جب کہ باقی رقم ملک ریاض سے ضبط کی گئی غیر منقولہ جائیداد کی قیمت تھی جو ابھی وصول ہونا باقی ہے۔
شہزاد اکبر نے این سی اے سے حاصل ہونے والی رقم کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے 2019 میں کابینہ کی منظوری حاصل کی تھی، این سی اے وہ ادارہ ہے جو منی لانڈرنگ اور مجرمانہ سرگرمیوں سے حاصل ہونے والی غیر قانونی مالی معاملات کی تحقیقات کرتا ہے اور چوری شدہ رقم کو متاثرہ ملکوں کو واپس کرتا ہے۔
عدالت میں اپنی درخواست میں شہزاد اکبر نے مؤقف اپنایا ہے کہ یہ تصفیہ برطانیہ میں ایک معاملے سے متعلق ہے جو برطانیہ کی قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے کنٹرول اور دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نیب نے سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے ایک سول سیٹلمینٹ سے متعلق انکوائری شروع کی جس میں وفاقی حکومت فریق بھی نہیں تھی، درخواست میں کہا گیا ہے کہ تصفیہ کا اصل فریق این سی اے تھا۔
درخواست میں شرلاک ہومز کہلانے والے شہزاد اکبر نے مؤقف اپنایا ہے کہ وہ ٹرانزیکشن جسے کال اپ نوٹس کا موضوع بنایا گیا ہے وہ نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آتی جب کہ وفاقی حکومت ابتدائی تصفیہ میں فریق نہیں تھی۔ شہزاد اکبر نے موقف اختیار کیا کہ اس نےایسٹ ریکوری یونٹ کے چیئرمین کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں اور اس حیثیت سے کابینہ کو معاملے سے آگاہ کرنے اور اسے خفیہ رکھنے کے معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے تب کی وفاقی کابینہ کے لیے سمری تیار کی۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ معاملے کو خفیہ رکھنا این سی اے کا مطالبہ تھا جب کہ اے آر یو نے ابتدائی طور پر پاکستان سے مطلوبہ معلومات فراہم کرکے اثاثہ منجمد کرنے کے آرڈر کے حصول میں این سی اے کی مدد کی تھی۔
سابق مشیر احتساب نے یہ درخواست بھی کی ہے کہ نیب کے 2 اگست کے کال اپ نوٹس کے جواب کے لیے ان کا انٹرویو ویڈیو لنک، اسکائپ، واٹس ایپ، زوم یا کسی اور دستیاب آن لائن ذریعے سے کیا جائے۔ اپنی درخواست میں شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ اگر نیب ایسا چاہے تو وہ پاکستان ہائی کمیشن لندن سے ویڈیو لنک کے ذریعے انکوائری میں شامل ہونے کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ 15 اگست کو بھی انہوں نے دوبارہ انٹرویو آن لائن کرنے کی درخواست کی تھی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ایسے میں درخواست گزار سمجھتا ہے کہ اگر نیب کا ارادہ معلومات حاصل کرنا اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا ہوتا تو نیب آن لائن انٹرویو کی درخواست قبول کر لیتا۔ انہوں نے کہا کہ ملک سے ان کی غیر موجودگی میں ان کا نام ای سی ایل میں ڈال کر مسلم لیگ (ن) کی حکومت ان کے خلاف غیر قانونی کارروائیاں کر رہی ہے۔

Related Articles

Back to top button