صادق اور امین قرار پانے والے عمران آئین شکن کیسے بنے؟


معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار سلیم صافی نے کہا ہے کہ سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ ثاقب نثار سے صادق اور امین ہونے کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے والے عمران خان کو بالآخر سپریم کورٹ نے ہی آئین شکن قرار دے دیا ہے۔ صافی کہتے ہیں کہ یہ کسی عمران مخالف سیاستدان کی رائے نہیں، یہ کسی اینکر یا تجزیہ کار کا تجزیہ نہیں۔ یہ کسی ایک جج کی رائے نہیں بلکہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے پانچ رکنی بنچ کا متفقہ فیصلہ ہے۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں سلیم صافی کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے فیصلہ صادر کیا ہے کہ عمران کا امریکی سازش کا الزام اور حکومت تبدیل کرنے کی تھیوری سراسر جھوٹ ہے۔ گویا ثاقب نثار کی طرف سے ’’صادق‘‘ و ”امین‘‘ ڈیکلئیر کئے جانے والے عمران کے بارے میں سپریم کورٹ کی متفقہ رائے آگئی ہے کہ موصوف اور ان کے ساتھی جھوٹ بول رہے ہیں۔ صافی کہتے ہیں کہ وہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی بات کر رہے ہیں جو عمران کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو رد کیے جانے کے معاملے میں آیا۔ صافی کہتے ہیں کہ میں یہاں صرف اور صرف چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں قائم پانچ رکنی بنچ کے متفقہ فیصلے کا تذکرہ کرنا چاہوں گا۔ 87 صفحات پر مشتمل اس فیصلے کے صفحہ نمبر 4 پر لکھا گیا ہے کہ قومی اسمبلی میں جو کچھ ہورہا تھا یا پھر دیگر الفاظ میں جس طرح آئین کے خلاف اقدام ہورہے تھے تو اس سلسلے میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے بارہ ججز کی چیف جسٹس آف پاکستان کے گھر مشاورت کے بعد اس معاملے پر سو موٹو ایکشن لیا گیا۔ فیصلے کے صفحہ 8 پر لکھا گیا ہے کہ 8 مارچ 2022 کو اپوزیشن نے عدم اعتماد کی تحریک قومی اسمبلی میں جمع کی اور اسی دن اجلاس کی ریکوزیشن بھی دی گئی۔ یوں آئین کی رو سے 22 مارچ کو اجلاس ضروری تھا لیکن ا سپیکر نے مذکورہ تاریخ کی بجائے 25مارچ کو اجلاس بلایا (گویا آئین کی خلاف ورزی ہوئی) ۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی جانب سے لکھے جانے والے تفصیلی فیصلے کے صفحہ 9 پر لکھا گیا ہے کہ 25 مارچ کو اجلاس بلا کر عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کئے بغیر اسے 28 مارچ تک ملتوی کیا گیا۔ فیصلے میں لکھا ہے کہ امریکہ میں پاکستانی سفیر نے خفیہ مراسلہ تین ہفتے قبل یعنی 7 مارچ کو بھیجا تھا لیکن27 مارچ کے جلسے تک وزیراعظم عمران خان یا کسی اور نے اس کا کوئی ذکر نہیں کیا تھا ۔ پہلی مرتبہ انہوں نے 27 مارچ کو ایک جلسے میں اس کا ذکر کیا۔ میں یا کوئی اور نہیں بلکہ سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بنچ اپنے فیصلے میں لکھتا ہے کہ 28مارچ کو جب قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا تو اس میں کسی حکومتی رکن نے سفیر کے خفیہ مراسلے کا ذکر نہیں کیا۔ 31 مارچ کو قومی اسمبلی میں عدم اعتماد پر بحث ہوئی لیکن اس اجلاس میں بھی کسی حکومتی رکن نے کسی امریکی سازش یا خفیہ مراسلے کا کوئی ذکر نہیں کیا اور رائے شماری کی بجائے اجلاس 3 اپریل تک ملتوی کردیا گیا۔

بقول صافی، عدالتی فیصلے میں مزید لکھا گیا ہے کہ 31 مارچ کو کابینہ کی قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا ۔ اسی طرح اسی دن پارلیمنٹ ہاؤس کی کمیٹی روم نمبر2 میں پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا جس میں اپوزیشن ممبران نے شرکت نہیں کی کیونکہ انہیں قومی اسمبلی کے اجلاس کے فوراً بعد مختصر نوٹس پر بلایا گیا تھا۔ کابینہ کی قومی سلامتی کمیٹی (جس کی صدارت عمران خان نے کی) ، کو خفیہ مراسلے کے بارے میں بریف کیا گیا لیکن کمیٹی نے (امریکی سازش کے مفروضے) کے بارے میں کوئی ٹھوس اقدام تجویز نہیں کیا اور صرف غیر پارلیمانی زبان کے استعمال پر احتجاج ریکارڈ کرانے پر اکتفا کیا گیا ۔فیصلے کے صفحہ 12 پر لکھا گیا ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی نے امریکی سازش (کے مفروضے) کے بارے میں سخت اقدامات اسلئے تجویز نہیں کئے کیونکہ امریکی سازش کی تھیوری کے لئے ٹھوس مواد موجود نہیں تھا۔

صافی بتاتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں مزید کہا گیا کہ حکومت اپوزیشن کے ان ممبران اسمبلی (جنہوں نے عدم اعتماد کی تحریک پیش کی تھی) میں سے کسی کا نام بھی سامنے نہ لاسکی، جن کا امریکیوں سے کوئی رابطہ تھا۔ فیصلے کے متن کے مطابق 13 پریل 2022 کو قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کے حکمنامے کے مطابق قومی اسمبلی کا اجلاس وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد پر رائے شماری کیلئے طلب کیا گیا تھا جو ایجنڈے کا آئٹم نمبر 4 تھا لیکن ووٹنگ کی بجائے ڈپٹی سپیکر نے وزیر قانون فواد چودھری کو پوائنٹ آف آرڈر پر بولنے کی اجازت دی حالانکہ آئٹم نمبر 2 اور 13 بھی نہیں نمٹائے گئے تھے۔ وزیرقانون نے پہلی مرتبہ اسمبلی کے فلور پر غیرملکی حکومت کی طرف سے حکومت کی تبدیلی یا رجیم چینج کا ایشو اٹھایا۔ وزیرقانون کے پوائنٹ آف آرڈر کا لب لباب یہ تھا کہ چونکہ عدم اعتماد کی تحریک غیرملکی حکومت کے ایما پر لائی گئی ہے اور تحریک لانے والے آئین کے آرٹیکل 5 (ریاست کے ساتھ وفاداری اور آئین و قانون کا احترام) کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اس لئے سپیکر اس پر رولنگ دے کہ تحریک کے محرکین آرٹیکل 5کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں یا نہیں؟۔ جونہی وزیرقانون نے گفتگو ختم کی تو ڈپٹی سپیکر نے اپوزیشن یا محرکین کو وزیرقانون کے الزام کا جواب دینے کا کوئی موقع نہیں دیا اور رولنگ دی کہ ”وزیراعظم پاکستان کے خلاف اپوزیشن نے عدم اعتماد کی تحریک8 مارچ 2022 کو پیش کی تھی۔ عدم اعتماد کی تحریک کا آئین، قانون اور رولز کے مطابق ہونا ضروری ہے۔ کسی غیرملکی طاقت کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ سازش کے تحت پاکستان کے عوام کی منتخب کردہ حکومت کو گرائے ۔ وزیر قانون نے جو نکات اٹھائے ہیں وہ درست ہیں۔ ویلڈ ہیں۔ لہٰذا میں رولنگ دیتا ہوں کہ عدم اعتماد کی قرارداد آئین اور قومی خود مختاری و آزادی کے منافی ہے اور رولز اور ضابطے کے خلاف ہے۔ میں یہ قرارداد مسترد اور ڈس الاو کرنے کی رولنگ دیتا ہوں“۔

پانچ رکنی بنچ کے فیصلے کے صفحہ 16 پر مزید لکھا گیا ہے کہ ڈپٹی سپیکر کی اس رولنگ کی وجہ سے عمران کو خان کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار مل گیا جسے استعمال کر کے انہوں نے صدر کو اسمبلی تحلیل کرنے کی تجویز دی، اور صدر نے منظور کرتے ہوئےاسمبلی تحلیل کر دی۔ وزیراعظم اور صدر کے ان اقدامات کی وجہ سے ملک دو ریاستی اداروں یعنی مقننہ اور انتظامیہ سے محروم ہو گیا۔ جس کی وجہ سے پیدا ہونے والے خلا کو پر کرنے کے لئے ان غیرمعمولی حالات میں سپریم کورٹ کو حرکت میں آنا پڑا۔ سلیم صافی کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے نے عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو آئین شکن ثابت کردیا ہے۔

Related Articles

Back to top button