عثمان کاکڑ کے ممکنہ قتل میں کون لوگ ملوث ہیں؟


سی ٹی سکین رپورٹ سے کنفرم ہو جانے کے بعد کہ عثمان کاکڑ کو برین ہیمرج نہیں ہوا تھا بلکہ انکے سر پر ضرب لگی تھی، ان کے صاحبزادے خوشحال خان خٹک کے اس الزام کو تقویت ملتی ہے کہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ سینٹر طبعی موت کا شکار نہیں ہوئے بلکہ ان کو قتل کیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ بطور سینٹر ایوان بالا میں اپنی آخری تقریر کرتے ہوئے عثمان کاکڑ نے کہا تھا کہ انہیں اور ان کے خاندان کو دھمکیاں دی جارہی ہیں اور اگر انہیں کچھ ہوا تو اس کی ذمہ داری خفیہ ایجنسیوں پر عائد ہوگی۔ کاکڑ کی موت کے بعد تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان نے بھی ایک فیس بک پیغام میں یہ انکشاف کیا ہے کہ فرار ہونے سے پہلے قید کے دوران انہیں ایک ہٹ لسٹ دی گئی تھی جس میں عثمان کاکڑ کا نام بھی شامل تھا تاہم انہوں نے یہ کام کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ دوسری جانب ان کے خاندان کے علاوہ پشتون قیادت بھی مسلسل یہ الزام عائد کر رہی ہے کہ عثمان کاکڑ کو قتل کیا گیا ہے اسلیے ان کے قاتلوں کا سراغ لگانے کے لیے ایک اعلی سطحی عدالتی کمیشن بنایا جائے۔
اس سے پہلے 23 جون کو ہر آمر کے خلاف جدوجہد کرنے والے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنما عثمان کاکڑ کے جنازے نے شرکا کی تعداد کی نئی تاریخ رقم کی۔ تدفین کے موقع پر رلا دینے والے مناظر دیکھنے کو ملے۔ عثمان کاکڑ کی ننھی بیٹی بلک بلک کر روتی رہی اور اپنے والد کو پکارتی رہی۔ یاد رہے کاکڑ کی عمر 60 برس تھی اور وہ وفات سے پہلے بھلے چنگے تھے۔ عثمان کاکڑ کی نماز جنازہ اور تدفین میں لوگوں نے جس بڑے پیمانے پر شرکت کی وہ بلوچستان کے پشتون آبادی والے علاقوں میں اب تک کا سب بڑا اجتماع تھا۔ بڑی تعداد میں سیاسی رہنماﺅں اور سیاسی کارکنوں کی شرکت کے باعث یہ ایک سیاسی اجتماع بھی بن گیا۔ اس بڑے اجتماع سے خطاب کے دوران عثمان کاکڑ کے بیٹے خوشحال خان کاکڑ اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے عثمان کاکڑ کی موت کو ’باقاعدہ قتل‘ قرار دیا اور ان کے قتل کی ذمہ داری ملک کے خفیہ اداروں پر عائد کی۔
دوسری جانب بلوچستان کے وزیر داخلہ ضیاءاللہ لانگو نے تحقیقات کے حوالے سے پشتونخوا میپ اور عثمان کاکڑ کے خاندان کو پیشکش کی ہے۔ کاکڑ کی تدفین کا وقت پانچ بجے تھا لیکن سیاسی رہنماﺅں کی بڑی تعداد میں شرکت اور خطاب کے باعث تدفین میں دو گھنٹے کی تاخیر ہوئی۔ کاکڑ کی نماز جنازہ جمیعت العلماءاسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے چھوٹے بھائی مولانا عطاالرحمان نے پڑھائی۔نمازجنازہ میں تاحد نگاہ لوگ ہی لوگ نظر آرہے تھے۔ نمازجنازہ کے بعد عثمان کاکڑ کی تدفین ان کے نام سے منسوب قبرستان میں کی گئی۔ اس قبرستان کے لیے زمین کاکڑ نے دی تھی جس کے باعث اس قبرستان کو ان کے نام سے ہی منسوب کردیا گیا تھا۔
جس طرح کوئٹہ سے کراچی تک عثمان کاکڑ کی میت کا فقید المثال استقبال کیا گیا اسی طرح کوئٹہ سے عثمان کاکڑ کے آبائی علاقے مسلم باغ تک بھی ان کی میت کا بڑے پیمانے پر استقبال کیا گیا۔
اگرچہ بلوچستان میں پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماﺅں کے داخلے پر پابندی ہے لیکن عثمان کاکڑ کے نماز جنازہ میں موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین اور رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ کو شرکت کی اجازت دی گئی تھی جس کے باعث وہ بھی اس میں شریک ہوئے۔
سیاسی رہنماﺅں نے عثمان کاکڑ کی سیاسی جدوجہد کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے اپنی 60سالہ زندگی کا 40 سال سیاسی جدوجہد میں گزاری۔
اس موقع پر پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی اور عثمان کاکڑ کے بیٹے خوشحال خان کاکڑ کے علاوہ پارٹی کے دیگر رہنماﺅں نے کہا کہ ’عثمان کاکڑ کی موت طبعی نہیں ہے بلکہ انہیں قتل کردیا گیا ہے۔‘انھوں نے کہا کہ قتل کے ذمہ دار ملک کے وہ دوخفیہ ادارے ہیں جن کا نام عثمان کاکڑ نے اپنی زندگی میں لیا تھا۔محمود خان اچکزئی نے کہا کہ ’اگر کوئی انصاف کرسکتا ہے تو ہم ان کو بتاسکتے ہیں کہ عثمان خان کاکڑ کو کس طرح دھمکیاں ملیں اور کس طرح لوگ ان کے گھر میں داخل ہوئے اوران پر حملہ کیا۔‘ عثمان کاکڑ کے بیٹے خوشحال خان کاکڑ نے کہا کہ انہیں ڈاکٹروں نے بتایا کہ عثمان کے سر پر بہت بڑی چوٹ لگی تھی اور وہ گرنے کی وجہ سے نہیں ہوسکتی ہے۔انھوں نے کہا کہ عثمان کاکڑ نے اپنی زندگی میں یہ کہا تھا کہ اگر انہیں یا ان کے خاندان کے کسی فرد کو کچھ ہوا تو اس کی ذمہ داری دو خفیہ اداروں پر عائد ہوگی۔خوشحال خان نے کہا کہ ان کے والد ہمیشہ یہ بات کرتے تھے کہ اب ان کے واردات کا طریقہ بدل گیا ہے۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنما اور پشتون اولسی جرگی کے سربراہ نواب ایازخان جوگیزئی نے عثمان کاکڑ کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم حکمرانوں کو کہنا چاہتے ہیں کہ اب بہت ہوگیا ہے۔‘انھوں نے کہا کہ ’پشتونوں کو ایسے قدم اٹھانے پر مجبور نہ کیا جائے پھر آپ کو پچھتانا پڑے۔‘ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے مرکزی رہنما رضامحمد رضا نے مطالبہ کیا کہ عثمان کاکڑکے قاتلوں کو سزا دی جائے اور تمام سیاسی جماعتوں سے اپیل کی وہ قتل کے خلاف آواز بلند کریں۔
دوسری طرف بلوچستان کے وزیر داخلہ ضیاءاللہ لانگو نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عثمان کاکڑ نہ صرف بلوچستان بلکہ ملک کے عظیم رہنما تھے۔ان کا کہنا تھا کہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کہا ہے کہ ان کے پاس عثمان کاکڑ کے قتل کے ثبوت ہیں اور اسی طرح ان کے بیٹے نے بھی یہی کہا ہے کہ ان کو قتل کیا گیا ہے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ ہم پشتونخوا میپ اور عثمان کاکڑ کے خاندان کو یہ پیش کش کرتے ہیں کہ وہ یہ ثبوت ہمارے ساتھ شیئر کریں حکومت ان کے ساتھ تحقیقات میں ہرقسم کی تعاون کے لیے تیار ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ایک طرف ہم ایک عظیم رہنما سے محروم ہوگئے لیکن دوسری جانب اس موقع پر ملک دشمن چاہتے ہیں کہ وہ اس حوالے سے غلط فہمیاں پیدا کریں۔‘ان کا کہنا تھا کہ ہم پاکستان فوج کا شکریہ اداکرتے ہیں کہ وہ ہر قسم کی علاج معالجے کے لیے ان کے خاندان کے ساتھ رابطے میں تھی۔
یاد رہے کہ بطور سینٹر ایوان بالا میں اپنے اس خطاب کے دوران عثمان کاکڑ نے چیئرمین سینیٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘ہم پر دباﺅ ڈالا جا رہا ہے کہ ہم جمہوریت اور اپنے نظریات سے دستبردار ہو جائیں، قوموں کی بات کرنا چھوڑ دیں، پارلیمنٹ کی بالادستی کی بات کرنا اور آمرانہ قوتوں پر تنقید کرنا بند کر دیں۔’ کاکڑ نے کہا تھا ‘مجھے یہ پیغامات مل رہے ہیں لیکن میں یہ نہیں کر سکتا۔ مجھے کچھ ہوا، میرے بچوں کو کچھ ہوا یا میرے خاندان کو کچھ ہوا تو کوئی پرواہ نہیں کیونکہ مجھے میرے نظریات، میری قوم اور پارلیمنٹ کی بالادستی زیادہ عزیز ہیں۔ لیکن میں یہ ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں کہ مجھے یا میرے خاندان کو اگر کچھ ہوا تو اس کے ذمہ دار دو انٹیلی جینس ادارے ہوں گے، میں یہ اس لیے ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں تا کہ یہ گم کھاتے میں نہ جائے۔’ عثمان کاکر کے عزیز یوسف خان کاکڑ کا کہنا ہے کہ واقعے کے وقت عثمان کاکڑ گھر میں اپنی چھوٹی بیٹی کے ساتھ اکیلے تھے تھے۔ وہ اپنے کمرے میں آرام کرنے گئے تو ان کی بچی ان کے پاس موجود نہیں تھی۔ انھوں نے دعوی کیا کہ اس دوران باہر سے گھر کے اندر داخل ہونے والے لوگوں نے ان پر حملہ کیا اور شدید زخمی کر دیا۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ کاکڑ کی موت کی اصل وجوہات جاننے کے لیے تحقیقات کی جائیں۔

Related Articles

Back to top button