عمران اپنی خالق اسٹیبلشمنٹ کو آنکھیں کیوں دکھا رہے ہیں؟


آئی ایس آئی کے سابق ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی نے کہا ہے کہ پاکستانی سیاست میں ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کا تراشا ہوا وزیر اعظم اپنے ہی خالق کے خلاف کھڑا ہو گیا ہو، لیکن جس حد تک عمران خان نے ریڈ لائن کراس کی ہے، ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔

ایک بھارتی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے اسد درانی نے یاد دلایا کہ عمران خان سے پہلے فوجی قیادت کے زیر سایہ سیاست شروع کرنے والے ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف بھی فوج کے لیے چیلنج بن گئے تھے لیکن پھر ان کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ بھی سب جانتے ہیں۔ اسد درانی نے کہا کہ اپریل 2022 میں جب اپنے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لیے فوج نے عمران کی مدد کرنے سے انکار کیا تو وہ بھی اسی راستے پر چل پڑے جو ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف نے اپنایا تھا۔ عمران نے پاکستانی عوام کے اینٹی اسٹیبلشمنٹ اور امریکہ مخالف جذبات کیش کروانے کے لیے ایک بیانیہ گھڑ لیا اور ان کا چورن بک گیا۔ اب موصوف نے لانگ مارچ کے دوران قاتلانہ حملے کا الزام نہ صرف موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف پر لگا دیا ہے بلکہ آئی ایس آئی کے ایک جرنیل کا نام بھی لے لیا ہے۔

انٹرویو کے دوران جنرل اسد درانی سے پوچھا گیا کہ کیا یہ فلیش پوائنٹ نہیں ہے اور کیا پاکستان میں فالٹ لائنز مزید گہری نہیں ہو گئیں؟ اس پر ریٹائرڈ جنرل نے کہا کہ پاکستان میں فالٹ لائنز ایک طویل عرصے سے موجود ہیں اور یہ کہنا درست نہیں کہ عمران خان پر قاتلانہ حملے کے بعد یہ اب مزید گہری ہو گئی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ قبل از وقت انتخابات درحقیقت عمران خان کا مطالبہ ہے لیکن جو لوگ اقتدار میں ہیں وہ اگلے سال اکتوبر میں ہونے تک انتظار کرنا پسند کرتے ہیں۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے انہیں کچھ سخت اور غیر مقبول فیصلے لینے پڑے جنہوں نے حکومت کے خلاف اور عمران کے حق میں کام کیا ہے۔ درانی نے کہا کہ اگرچہ بنیادی طور پر اقتصادی میدان میں پاکستان کو جو سنگین نقصان پہنچا اس کی ذمہ دار عمران حکومت تھی لیکن سارا مدعا موجودہ حکومت پر پڑ گیا۔ جنرل درانی نے کہا کہ موجودہ حکومت اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ اگلے چند مہینوں میں یہ کچھ مثبت نتائج دکھانے کے قابل ہوجائے گی اور اگلے الیکشن تک اس کی ساکھ بہتر ہو جائے گی۔

انٹرویو کے دوران اسد درانی سے پوچھا گیا کہ آپکے خیال میں عمران خان، جو کبھی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے زیر حمایت تھے، چیلنج کرنے والے کیسے بن گئے؟ جواب میں اسد درانی نے کہا کہ ایسا پہلے نہیں ہوا اور ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف بھی فوج کے خلاف بغاوت کر چکے ہیں۔ تاہم عمران خان کا نواز اور بھٹو سے فرق یہ ہے کہ ماضی کے دونوں وزرائے اعظم فوج کے سیاسی کردار کا خاتمہ چاہتے تھے جبکہ عمران کا جھگڑا یہ ہے کہ فوج سیاست کرتی رہی ہے لیکن مجھے اقتدار دلوا دے۔ جنرل درانی نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ عمران نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کچھ بیک چینلز کھلے رکھے ہوئے ہیں لیکن اس بات کا امکان کم نظر آتا ہے کہ وہ ڈیڈ لاک توڑنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ سابق ڈی جی آئی ایس آئی سے پوچھا گیا کہ عمران اور جنرل باجوہ کے درمیان کیا گڑبڑ ہوئی تھی تو انہوں نے کہا کہ عمران کے اقتدار سے محروم ہونے اور محاذ آرائی کا راستہ اختیار کرنے کے بعد اسٹیبلشمنٹ سے رنجش میں اضافہ ہوا۔ لیکن انکا کہنا تھا کے نئے آرمی چیف کی تقرری کے ساتھ ہی معاملات میں بہتری آنا شروع ہو جائے گی۔

Related Articles

Back to top button