عمران خان حکومت کرنے آئے تھے یا کہ غلطیاں کرنے ؟

اپریل میں تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں اپنی حکومت ختم ہونے کے بعد سے عمران خان اپنی تمام تر ناکامیوں کو غلطیاں قرار دیتے ہوئے ان کا مدعا دوسروں پر ڈالنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں، ایسے میں یہ سوال کرنا بے جا نہ ہوگا کہ وہ حکومت کرنے کے لیے وزیر اعظم بنائے گئے تھے یا غلطیاں کرنے کے لیے؟

 

بی بی سی کے لیے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں معروف لکھاری وسعت اللہ خان کہتے ہیں کہ عمران خان کے بقول جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر کرنا غلطی تھی، مخلوط حکومت قبول کرنا غلطی تھی، فوجی اسٹیبلشمنٹ پر بھروسہ کرنا غلطی تھی، جنرک باجوہ کو ایکسٹینشن دینا بہت بڑی غلطی تھی، بڑھتے ہوئے افراطِ زر کی روک تھام کو ترجیح نہ دینا غلطی تھی، ریئل اسٹیٹ مافیا کو ٹیکس ایمنسٹی دینا غلطی تھی، نواز شریف کو لندن بھیجنا غلطی تھی وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔انکا کہنا ہے کہ غلطیاں سب سے ہوتی ہیں مگر خان صاحب دیگر سیاست دانوں کے برعکس صاحبِ ظرف شخصیت ہیں۔ وہ فراخ دلی سے غلطیاں کر کے انھیں کھلے دل سے تسلیم کر لیتے ہیں۔ ایسی شخصیت کی دل جوئی تو بنتی ہے۔ ایک درد مند اور معصوم سیاستدان کو ایسا ہی ہونا چاہیے اور ساتھ ہی ساتھ ہمیں خدا کا شکر بھی ادا کرنا چاہیے کہ ایسے شفاف گھڑی فروش اب بھی ہماری سیاست میں موجود ہیں۔

 

لیکن وسعت اللہ خان کہتے ہیں کہ شاید میں غلط کہہ رہا ہوں۔ اس بدقسمت ملک کو ساڑھے سات عشروں میں بیشتر قیادت ایسی ہی ملی ہے جس نے پاکستان کے جسدِ خاکی پر آن جاب پوسٹ مارٹم کرنے کی ٹریننگ لی ہے۔ اس جسم پر کاسمیٹک سرجری سمیت ہر طرح کی جراحی آزمائی جا چکی ہے اور جاری ہے۔ اس کے سینے پر ہر نیا نشتر ٹیسٹ ہوتا ہے۔ اس کے حلق سے ہر نیا عرق، معجون اور کیسپول اتارا جاتا ہے۔ ہر بار اس کے معدے کا ایک اور علاج شروع کر کے نامکمل چھوڑ دیا جاتا ہے۔ حکمت، ایلوپیتھی، ہومیو پیتھی، آکو پنکچر اور جھاڑ پھونک کو باری باری نہیں ایک ساتھ آزمایا جاتا ہے اور وہ بھی دیوانہ وار، درجنوں بار۔ چنانچہ حالت یہ ہو چلی ہے کہ اس جسدِ خاکی پر اب تھرڈ فورتھ جنریشن چھوڑ ففتھ جنریشن دوا بھی اثر نہیں کر پا رہی۔ چونکہ ہر شاخ پر عطائیت بیٹھی ہے، اس لیے کون کس کو پکڑے یا کس جواز پر ہاتھ ڈالے۔ سب کو سب کا شجرہ، اوقات، اہلیت اور طاقتِ پرواز معلوم ہے۔ وہ جو کسی نے کہا ہے کہ ’وچوں وچ کھائی جاؤ، اتوں رولا پائی جاؤ۔‘

 

وسعت اللہ خان کہتے ہیں کہ اگر اب تک اس مریضِ خداداد کی سانس چل رہی ہے تو یہ کسی بھی دوا سے زیادہ دعا کی کرامت ہے۔ بخدا آپ یا آپ میں سے کسی سے کوئی غلطی نہیں ہوئی اور نہ ہو گی۔ غلطی بہت پہلے ہم جذباتیوں سے ہوئی تھی، ہوئی ہے اور آئندہ بھی ہوتی رہے گی۔ جب حالاتِ حاضرہ لامتناہی ہو جائیں تب ہی ان کی کوکھ سے یہ جملہ جنم لے کر قومی نفسیات میں پیوست ہوتا ہے کہ ’جو ہوا سو ہوا، مٹی پاؤ، آگے کا سوچو۔‘ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ’جو ہوا سو ہوا‘ بھی تو مسلسل ہوئے چلا جا رہا ہے۔ آخر کنی مٹی پائیے اور کتنا آگے کا سوچئے۔ آگے بھی تو ہر موڑ پر ’تکلیف کے لیے معذرت خواہ ہیں۔ کام جاری ہے‘ کا بورڈ لگا ہے۔

 

وسعت اللہ خان کہتے ہیں کہ ہم نے تو آج تک کسی شاعر کو اپنے کسی ہم عصر کو دل سے تسلیم کرتے نہیں دیکھا۔ کسی طبیب کو دوسرے طبیب کا نسخہ تسلی بخش نہیں لگتا۔ ہر ریستوران دعوی ٰکرتا ہے کہ وہی ’لذیذ کھانے کا واحد مرکز ہے۔ کوئی باورچی کسی اور خانسامے کی بریانی کی تعریف کرے نہ کرے نقص نکالنا نہیں بھولتا۔ ملتان کینٹ کے ریلوے سٹیشن پر سوہن حلوے کے ہر ’اصلی برانڈ‘ کے ڈبے پر یہی لکھا ہوتا ہے ’نقالوں سے ہوشیار۔‘ یہاں ہر سیاسی جماعت باقیوں سے زیادہ اہل اور دردمند ہے۔ ہر ریٹائرڈ جرنیل کم ازکم جولیئس سیزر اور ہر حاضر سروس حضرت خالد بن ولید کا وارث ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ پھر اتنے نابغہِ روزگاروں اور غیر معمولی مثالیوں کے ہوتے ہم اس معمولی حالت تک آخر کیسے پہنچ گئے۔ ایبنارمل کی سطح سے بلند ہوتے ہوتےعیب نارمل کی منزل پر کیسے چڑھ گئے۔

ہاں ہم نے اگر کوئی شے نہیں کھوئی تو وہ ہے اکڑ۔ اوپر سے نیچے تک، عام سے خاص تلک سب میں مشترک ہے اکڑ۔ ہم سے اچھا کوئی نہیں اور تم سے برا کوئی نہیں۔ اسی وجہ سے ہم پورے کے پورے اکڑ چکے ہیں مگر اکڑ پھر بھی نہیں جاتی۔ قومی ورثہ جو ہوئی۔ چنانچہ یہ پیش گوئی کی جائے تو غلط نہ ہوگی کہ ہر کھیل کے اختتام پر پردہ گرتا ہے لیکن اس کھیل کے آخر میں پردہ نہیں گرے گا، بلکہ اس پر کپڑا ڈالا جائے گا۔

Related Articles

Back to top button