عمران خان کو نومبر سے پہلے نکالنا ضروری کیوں تھا؟


سینیئر صحافی اور تجزیہ کار نجم سیٹھی نے کہا ہے کہ ایک طرف عمران خان کی کوشش ہے کہ نئے الیکشن کا جلد از جلد انعقاد ہو تاکہ وہ سازشی بیانیے کا فائدہ اٹھا سکیں جبکہ دوسری جانب شہباز شریف کی اتحادی حکومت کو اگلے برس تک چلنا ہو گا کیونکہ جلد الیکشن کا فائدہ عمران خان کو ہو گا۔
نیا دور کے ٹی وی پروگرام میں اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے نجم سیٹھی نے کہا کہ جتنے مرضی حقائق تحریک انصاف والوں کے سامنے رکھ دیے جائیں لیکن وہ یہ ماننے کو قطعی طور پر تیار نہیں کہ عمران حکومت کیخلاف کوئی غیر ملکی سازش نہیں ہوئی تھی۔ حقیقت تو کچھ اور ہے لیکن اسے ماننے کیلئے پی ٹی آئی والے تیار نہیں۔
انکا کہنا تھا کہ عمران خان ایک بات اچھی طرح سمجھ چکے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ عوام کو اکھٹا کرنے کیلئے بڑا ہی زبردست کارڈ ہے۔ لیکن ان کو اندازہ نہیں کہ اقتدار میں واپس جانے کیلئے یہ بیانیہ سود مند نہین بلکہ نقصان دی ثابت ہوگا۔ عمران کا خیال ہے کہ اگر آرمی کی قیادت کو ٹارگٹ کیا جائے گا تو فوج کے اندر سے ہی اس پر اتنا دبائو بڑھے گا کہ وہ پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو جائے گی۔ لہذا ان کی کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے ادارے کو تقسیم کیا۔ تاہم سیٹھی کے خیال میں عمران کی اس پالیسی کے ردعمل میں ان کے خلاف کریک ڈائون بھی ہو سکتا ہے اور شاید اسی لئے انہوں نے اپنا بیانیہ تھوڑا نرم کر لیا ہے۔ دوسری جانب آرمی کی قیادت نے بھی عمران کی تنقید کے باوجود یکجتی کا مظاہرہ کیا ہے اور حالات اس نہج تک نہیں پہنچنے دیے جہاں تک پہنچانے کی کوشش کی جا رہی تھی۔
نجم سیٹھی کے مطابق نئے حکومتی اتحاد کو اس چیز کا بخوبی احساس ہو گیا ہے کہ ابھی یا کبھی نہیں والی صورت حال پیدا ہو چکی ہے اور اگر عمران کے جھوٹے بیانیے کا حل نہ نکالا گیا تو ان کا کھاتہ ختم ہونے جا رہا ہے۔ اس لیے سلامتی قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلا کر عمران کے بیانیے کو پنکچر کر دیا گیا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ اگر عمران خان نومبر 2022 تک برسر اقتدار رہ جاتا تو اس نے ایسے جرنیل کو آرمی چیف بنا دینا تھا جس نے ماضی میں بھی 2018ء کا الیکشن جیتنے کیلئے ان کی بھرپور مدد کی تھی۔ جرنیل موصوف چار سال تک عمران کی پوری پشت پناہی کرتے رہے لیکن جیسے ہی انہیں عہدے سے ہٹایا گیا تو سب نے دیکھا کہ لوگوں نے پی ٹی آئی چھوڑ کر جانا شروع کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم کو یہ فکر لاحق تھی کہ اگر عمران خان کو اقتدار سے نہ ہٹایا گیا تو پھر ویسی ہی صورتحال پیدا ہو جائے گی کہ وہ نئے آرمی چیف کیساتھ مل دوبارہ سے 2023ء کے الیکشن میں دھاندلی کرکے اپنی حکومت بنا لیں گے۔ پھر یہ دونوں مل کر مزید پانچ سال رہتے۔ عمران خان کی خواہش کے تحت بننے والے آرمی چیف کو ایکسٹینشن دیدی جاتی جبکہ عمران پانچ سال مذید حکمران رہتا۔ یوں عمران کا 2028ء تک اقتدار میں رہنے کا پروگرام تھا۔
نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر عمران خان اپنی مقبولیت کھوتے جا رہے تھے تو ان کو اپنی مدت پوری کرنے دینی چاہیے تھی تاکہ وہ عوام کی نظروں میں اور غیر مقبول ہو جاتے اور 2023ء میں ہونے والے صاف اور شفاف الیکشن میں ان کی ویسے ہی چھٹی ہو جاتی۔ لیکن انکا کہنا یے کہ عمران خان کو اچھی طرح علم ہے کہ ان کی مقبوکیت گرنا شروع ہو چکی ہے۔ اگر پی ڈی ایم نے پاکستان اور اسکی معیشت کو سنبھال لیا تو عمران اگلا الیکشن نہیں جیت سکیں گے۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے سیٹھی کہنا تھا کہ عمران کو جو عوامی سپورٹ مل رہی ہے وہ جذباتی قسم کے لوگوں کی ہے جو عقل کی بجائے دل کی سنتے ہیں۔ لیکن جذباتی سپورٹ کا مسئلہ یہ یے کہ یہ جس تیزی سے اوپر جاتی ہے ویسے ہی نیچے بھی آتی ہے۔ پھر بھی گیلپ سروے کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اگر آج ہی الیکشن کرا دیئے جائیں تو پنجاب کی سطح پر عمران کو 30 فیصد سے زائد سیٹیں نہیں مل سکتیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اب سول ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی لیڈرشپ متحد ہو چکی ہے۔ ایسی صورت حال میں نقصان اگر ہوگا تو عمران اور پی ٹی آئی کا ہوگا۔ سب کو علم ہے کہ نومبر میں جنرل باجوہ کی ریٹائرمنٹ تک سروائیو کرنا ہے کیونکہ عمران اور ان کے فیورٹ جرنیل طاقت میں آ گئے تو مشکل ہو جائے گی۔ اس لئے تمام حکومتی اتحادیوں کا متحد رہنا ضروری ہے۔

Related Articles

Back to top button