عمران خان کے گھر کی اندرونی سکیورٹی KP پولیس کے حوالے

معلوم ہوا ہے کہ لاہور میں زمان پارک کے علاقے میں واقع عمران خان کی رہائش گاہ کی بیرونی سکیورٹی تو پنجاب پولیس کے حوالے ہے لیکن ان کے گھر کی اندرونی سکیورٹی خیبر پختونخوا سے آنے والی پولیس کے حوالے ہے جس پر عمران پنجاب پولیس سے زیادہ اعتماد کرتے ہیں۔ عمران کے گھر کی چاردیواری کے باہر ریت اور سیمنٹ کی ہزاروں بوریوں کی اضافی دیوار کھڑی کر کے اسے ایک حفاظتی قلعہ کی شکل دے دی گئی ہے جہاں کسی چڑیا کا پر مارنا بھی مشکل بنا دیا گیا ہے۔

کئی سال پہلے عمران خان کے اسلام آباد کے مضافاتی علاقے بنی گالہ منتقل ہونے کی وجہ سے ماند پڑ جانے والی زمان پارک لاہور کی رونقیں اب عمران کے وہاں طویل قیام کی وجہ سے ایک مرتبہ پھر بحال ہو چکی ہیں۔ وزیرآباد کے قریب لانگ مارچ کے دوران قائدین کے کنٹینر پر فائرنگ کے واقعہ کے بعد عمران خان زخمی ہونے کے باعث اپنی اس پرانی رہائش گاہ میں مقیم ہیں اور ان کی تمام سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بھی یہی ہے لیکن سکیورٹی تھریٹ کی وجہ سے اب درختوں میں گھرے اس گرین ہاؤس کا نقشہ ہی تبدیل ہو چکا ہے۔ سرخ اینٹوں سے بنی اس رہائش گاہ کی چاردیواری کے باہر ریت اور سیمنٹ کی ہزاروں بوریوں کی اضافی دیوار کھڑی کر کے اسے حفاظتی قلعہ کی شکل دے دی گئی ہے۔ کینال روڈ سے داخل ہوں تو ہر طرف پنجاب پولیس کے اہلکار اور افسر تلاشی لیتے نظر آتے ہیں۔ اب تین مراحل کی سکیورٹی عبور کرنے کے بعد ہی کوئی شخص عمران خان کی رہائشگاہ تک پہنچ سکتا ہے۔

بی بی سی کی ایک تفصیلی رپورٹ کے مطابق زمان پاک میں عمران کی رہائش گاہ کے باہر عجب مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ درجنوں سکیورٹی اہلکار تو دن رات وہاں موجود رہتے ہی ہیں، مگر ہر روز سورج طلوع ہونے کے بعد میڈیا اداروں کی درجنوں گاڑیاں ایک قطار میں کھڑی نظر آتی ہیں۔ یہ گاڑیاں رات کی تاریکی میں اس وقت واپسی کی تیاری کرتی ہیں جب انھیں تسلی ہو جائے کہ زمان پارک کی اس رہائش گاہ کا مکین سو گیا ہے اور اب ملاقات کے لیے کسی ایسی شخصیت کے آنے کا بھی کوئی امکان نہیں جن کے سامنے دوڑ کر کیمرا آن کرنا پڑے۔ میڈیا اور پولیس اہلکاروں کے ساتھ ساتھ ہر روز عمران خان سے ملنے کی خواہش لے کر کئی لوگ اور کئی کردار آپ کو وہاں نظر آئیں گے۔ کئی کردار تو ایسے ہیں جو صبح سے رات تک باقاعدگی سے آ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ عمران سے ملاقات کی خواہش تو پوری نہیں ہو پاتی مگر مسلسل ڈیوٹی دینے والے میڈیا رپورٹرز یا کیمرا مین کبھی کبھی اپنی بوریت دور کرنے کے لیے ان سے بات چیت کر کے نیوز آئٹم تیار کر ہی لیتے ہیں۔

سکیورٹی کے حصاراور لوگوں کے ہجوم میں گھرے اس زمان پارک کا ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ لاہور شہر کی یہ رہائشی کالونی ان دنوں ’منی خیبر پختونخوا‘ کا منظر پیش کرتی ہے۔ ریڑھی پر گرم مونگ پھلی بیچنے والے، تھرماس پکڑے قہوہ پلانے والے، عمران خان سے شوقیہ ملاقات کرنے والوں سے لے کر عمران کی رہائش گاہ کے اندرڈیوٹی دینے والوں کی اکثریت پشتو بولنے والوں کی ہے۔ کینال روڈ سے ایک فرلانگ کے فاصلے پر موجود چیئرمین تحریک انصاف کی اس رہائش گاہ کے قریب پہنچنے سے پہلے ہر شخص کو سکیورٹی کے تین حصار عبور کرنے پڑتے ہیں اور دو سے تین بار جامہ تلاشی دینا پڑتی ہے۔ یہ مراحل طے کرنے کے بعد جب آپ عمران کی رہائش گاہ کے مرکزی گیٹ کے قریب پہنچے ہیں تو پنجاب پولیس والے کہتے ہیں ’پنجاب پولیس خداحافظ، اب آپ صوبہ خیبر پختونخوا میں داخل ہو رہے ہیں’۔

بی بی سی کے نمائندے کے مطابق مجھے پہلے تو ان کی یہ بات سمجھ میں نہیں آئی مگر جیسے ہی مرکزی گیٹ پر پہنچا تو خیبر پختونخوا کی پولیس کے تین کمانڈوز نے میرا استقبال کیا۔ تلاشی کے بعد جانے کا اشارہ کیا تو اندر سے جس پولیس کمانڈو نے گیٹ کھولا وہ بھی خیبر پختونخوا پولیس کی یونیفارم پہنے ہوئے تھا۔ جس وقت پولیس کے اہلکار میری جامہ تلاشی لے رہے تھے میں گھر کے لان، عمارت کی بالکونیوں اور چھتوں پر نظر دوڑا رہا تھا اور ہر طرف مجھے خیبرپختونخوا کے پولیس اہلکار اور کمانڈوز نظر آ رہے تھے۔ گھر کے اندرونی دروازے کا دربان بھی خیبرپختونخوا کا تھا۔ عقبی صحن میں بھی خیبر پختونخوا کے سکیورٹی اہلکار دھوپ میں بیٹھے قہوہ پی رہے تھے۔ گھر کے اندر بھی مجھے ہر طرف پختونخوا ہی نظر آیا۔ حقیقت میں زمان پارک کی یہ رہائشگاہ ’منی خیبر پختونخوا‘ نظر آ رہی تھی مگران سوالات کا تسلی بخش جواب وہاں موجود تحریک انصاف کے قائدین تو نہیں دے سکے کہ عمران کی ذاتی سکیورٹی پر مامور تمام کے تمام اہلکار خیبر پختونخوا سے کیوں بلائے گئے۔ سوال یہ بھی ہے کہ عمران خان کی رہائشگاہ کو پنجاب پولیس کے لیے ممنوعہ علاقہ کیوں قرار دیا گیا اور کیا یہ پنجاب پولیس پرعدم اعتماد کے مترادف نہیں۔

Related Articles

Back to top button