عمران سائفرپرعوام کو ماموں بنانے میں کیسے کامیاب ہوئے؟


سینئر صحافی اور تجزیہ کار نصرت جاوید نے کہا ہے کہ پاکستانی عوام کو جھوٹے سائفر کی اصل حقیقت بارے آگاہ کرنے میں نہ صرف پی ڈی ایم حکومت ناکام رہی بلکہ ہماری اسٹیبلشمنٹ بھی اس میں برابر کی قصوروار ہے جس کے نتیجے میں عمران خان کے فالوورز نے ان کے امریکی سازش کے بیانیے کو من وعن تسلیم کر لیا۔ انکا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت ”سائفر“ کی اصل حقیقت پانچ مہینے گزر جانے کے باوجود عوام کو سمجھا نہیں پائی اور یہی اس کی سب سے بڑی ناکامی ہے۔ ریاستی اداروں نے بھی اس حوالے سے کسی مناسب پیش قدمی سے اجتناب برتا۔ ایسے میں عمران خام نے کمال مہارت سے اپنے حامیوں کو قائل کر لیا ہے کہ امریکہ ان کی وطن پرستی سے اکتا گیا تھا اور انہیں دھمکانے کی کوششیں ناکام ہونے کے بعد انہیں اقتدار سے فارغ کروانے کے لئے ”آپریشن رجیم چینج“ لانچ کر دیا۔

نصرت جاوید کہتے ہیں کہ عمران خان کے حامی بظاہر جائز بنیادوں پر یہ سوال اٹھارہے ہیں کہ اگر ان کے قائد کے خلاف امریکہ نے واقعتاًکوئی سازش نہیں کی تھی تو موجودہ حکومت مشہور زمانہ دھمکی والے سائفر کی کاپی منظر عام پر کیوں نہیں لارہی۔ عمران سے منسوب جو آڈیو لیک حال ہی میں منظر عام پر آئی ہے وہ یہ حقیقت بھی منظر عام پر لائی ہے کہ ایک کائیاں سیاستدان کی طرح سابق وزیر اعظم اس امر سے بخوبی آگاہ تھے کہ ہمارے عوام کی بے پناہ اکثریت کو ”سائفر“ کے بنیادی لوازمات کی خبر نہیں۔ وہ اسے ایک خط یا ”مراسلہ“ تصور کرتے ہیں جو واشنگٹن میں مقیم ہمارے سفیر نے ایک امریکی سفارت کار سے ملاقات کے بعد اسلام آباد کو آگاہ کرنے کے لئے لکھا تھا۔

نصرت کہتے ہیں کہ عمران خان جن دنوں ”سائفر“ کی دہائی مچانا شروع ہوئے تو ہماری وزارت خارجہ کا یہ پیشہ وارانہ فرض تھا کہ وہ اپنے ترجمان کے ذریعے فقط اس نوعیت کے مراسلے کے بنیادی اوصاف عوام کو سمجھادیتے۔ مان لیتے ہیں کہ سرکاری افسروں کی چند مجبوریاں ہوتی ہیں۔ان کے لئے یہ ممکن ہی نہیں کہ ”حکومت“ تصور ہوتے سیاستدان کے پھیلائے بیانیے کو ”رد“ کرتے سنائی دیں۔ ”آف دی ریکارڈ“ اور ”ڈیپ“ نام کی بھی تاہم چند بریفنگز ہوتی ہیں۔ وزارت خارجہ کے حکام عوام میں مقبول شمار ہوتے صحافیوں اور اینکر خواتین وحضرات کے منتخب گروپ کے ساتھ اس نوعیت کی بریفنگ کا اہتمام کرسکتے تھے۔ بعدازاں ”ذمہ دار ذرائع“ سے منسوب کرتے ہوئے حقیقت لوگوں کو سمجھائی جا سکتی تھی۔ افسروں کو مگر اپنی نوکری بچانا ہوتی ہے۔حکومت وقت کو ناراض کرنے کی جرات نہیں دکھاتے اور یوں میری دانست میں پیشہ ورانہ بددیانتی نہ سہی غفلت کے مرتکب یقینا ًہوتے ہیں۔

نصرت جاوید بتاتے ہیں کہ ”سائفر“ عام زبان میں نہیں لکھا جاتا۔ جو پیغام پہنچانا ہو اسے خفیہ زبان میں لکھنا ہوتا ہے۔ سفارتی زبان میں اسے ”کوڈ“ کہا جاتا ہے۔ دنیا بھر کی جاسوس ایجنسیاں ہمیشہ اس تڑپ میں مبتلا رہتی ہیں کہ وہ اس ”کوڈ“ تک رسائی حاصل کر پائیں جو ان کے حریف ممالک خارجہ امور کی بابت پیغام رسانی کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ ”کوڈ“ میں جب کوئی اہم پیغام لکھ دیا جائے تو وزارت خارجہ میں وصول ہو جانے کے بعد زیر استعمال ”کوڈ“ سے آگاہ افسر ہی اسے ”ڈی کوڈ“ کر سکتے ہیں۔ اہم ترین موضوع پر جب کوئی ”سائفر“ مل جائے تو اسے ”ڈی کوڈ“ کرنے کے بعد جو مضمون تیار ہوتا ہے اسے ہماری ریاست کے پانچ اہم ترین افراد کے علاوہ کسی اور کو دیکھنے کا اختیار حاصل نہیں۔ وزارت خارجہ کے سربراہ کے علاوہ جن دیگر افراد تک ”ڈی کوڈ“ ہوئی ”کاپی “بھیجی جاتی ہے اصولی طور پروہ اسے پڑھ کر فی الفور ضائع کر دیتے ہیں اور صرف وزارت خارجہ کے ریکارڈ ہی میں اسے اصل صورت میں محفوظ رکھا جاتا ہے۔

نصرت جاوید کہتے ہیں کہ خفیہ زبان یا ”کوڈ“ میں جو پیغام رواں برس کے آغاز میں واشنگٹن میں پاکستانی سفیر اسد مجید خان نے اسلام آباد بھجوایا اس کی کاپی صدر مملکت، وزیر اعظم، آرمی چیف یا سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے روبرو بھی رکھ دی جائے تو وہ اسے سمجھ نہیں پائیں گے۔ اس کے ذریعے پیغام کو سمجھنے کے لئے انہیں اس شخص کی ”گواہی“ درکار ہوگی جس نے اس ”سائفر“ کو ”ڈی کوڈ“ کیا تھا۔ ان کی جانب سے فراہم کردہ ”گواہی“ کی تصدیق کے لئے مگر یہ بھی لازمی ہے کہ جس دن وہ ”سائفر“ ڈی کوڈ ہوا تھا اس دن کے لئے مروجہ ”کوڈ“ کی تفصیلات سے بھی گواہی کو جانچنے والے آگاہ ہوں۔ مختصراًیہ کہ عوام کو حقیقت سے آگاہ کرنے کے لئے “سائفر کی محض ”اصل“ ہی درکار نہیں۔ اس میں دیے پیغام کی زبان سمجھنے کے لئے اس دن استعمال ہوئے ”کوڈ“ تک رسائی بھی درکار ہوگی۔ وہ ”کوڈ“ عیاں ہوگیا تو ہماری ریاست پر نگاہ رکھنے والی ایجنسیاں تھوڑی محنت کے بعد اندازہ لگا سکتی ہیں کہ کونسی بات بیان کرنے کے لئے کونسا ”کوڈ“ استعمال ہوتا ہے۔ اور دنیا کی کمزور ترین ریاست بھی یہ ”راز“ عیاں کرنے کی جرات نہیں دکھائے گی۔

لیکن نصرت جاوید کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت ”سائفر“ کی اصل حقیقت پانچ مہینے گزر جانے کے باوجود عوام کو سمجھا نہیں پائی۔ ریاستی اداروں نے بھی اس حوالے سے کسی مناسب پیش قدمی سے اجتناب برتا۔ لہذا عمران خان نے کمال مہارت سے اپنے حامیوں کو قائل کر دیا کہ امریکہ ان کی وطن پرستی سے اکتا گیا تھا اور انہیں دھمکانے کی کوششیں ناکام ہونے کے بعد انہیں اقتدار سے فارغ کروانے کے لئے ”آپریشن رجیم چینج“ لانچ کر دیا۔ یوں بقول عمران خان، ایک ”امپورٹڈ حکومت“ مسلط کر دی گئی۔ نصرت جاوید کے بقول ہمارے محافظ بھی اس تناظر میں اگر ”سہولت کاری“ نہیں تو غفلت وکوتاہی کے مرتکب دکھائی دیے۔ اپنے دیرینہ حامی ہی نہیں عام پاکستانیوں کی کماحقہ تعداد کو بھی عمران ”سائفر“ کے حوالے سے اپنی جانب سے گھڑی گئی داستان کی بابت قائل کرچکے ہیں۔ لہٰذا خان کے سیاسی مخالفین کے پاس اب کف افسوس کی اذیت سے گزرنے کے سوا اور کوئی راستہ باقی نہیں بچا۔

Related Articles

Back to top button