عمران مستقبل میں لات کھانے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟


معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار غریدہ فاروقی نے کہا ہے کہ عمران خان نے اگر حقیقی آزادی اور حقیقی کامیابی حاصل کرنی ہے تو پہلے حقیقی چی گویرا بنیں لیکن اگر صرف مصلحت کے تحت جارحانہ مزاحمت کرنی ہے تو پھر چی گویرا کے فلسفے کو لات مار دیں اور جلسے جلوسوں اور کمزور بیانیے پر اپنا اور عوام کا وقت اور پیسہ ضائع نہ کریں۔ غریدہ فاروقی نے عمران خان کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اس فارغ اور میسر وقت کو اپنی حاکمانہ حماقتوں کے ازالے اور درستی کے لیے استعمال کریں۔ جماعتی تنظیم کی طرف دھیان دیں کیونکہ پنجاب کے ضمنی الیکشن کے نتائج میں جو فاش غلطیاں سامنے آئیں گی ان کا خمیازہ خان صاحب کو بھگتنا پڑے گا، لہذا بہتر ہو گا کہ خان صاحب خود کو اور اپنی جماعت کو سنبھالیں اور اتنا تگڑا اور مضبوط بنائیں کہ وقت آنے پر آئندہ انہیں لات نہ کھانی پڑے۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں غریدہ فاروقی کہتی ہیں کہ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ کم از کم جلسے جلوسوں میں عمران خان اچھی تعداد میں لوگ اکٹھے کر لیتے ہیں، لیکن اصل سوال تو یہ ہے کہ اقتدار سے نکلے خان صاحب کو کم و بیش تین ماہ ہو گئے لیکن اس دوران انہوں نے سیاسی اعتبار سے کونسی کامیابی حاصل کی اور کونسی ناکامی سمیٹی۔ چند روز قبل سابق آرمی کیپٹن، سابق پی پی جیالے، سابق ن لیگی، سابق ایڈیٹر، سابق اینکر اور موجودہ تجزیہ کار و انصافی سہولت کار ایاز امیر نے عمران خان کو ’لات مار کر نکالے گئے چی گویرا‘ سے تشبیہ دی ،لہذا سوال تو بنتا ہے کہ کیا عمران واقعی ایک بار پھر 2011 سے قبل کے نظریاتی جنگجو بن چکے ہیں یا محض مصلحت کے تحت مزاحمتی بیانیہ اپنائے ہوئے ہیں؟

غریدہ فاروقی کہتی ہیں کہ ایاز امیر نے تو خان صاحب کو جو چند جملی آئینہ دکھایا تھا وہ گویا ایک سابق آرمی کیپٹن کا ایک سابق کرکٹ کیپٹن سے ایسا جزوقتی مکالمہ تھا، جس کا محض اتنا ہی ربط ہے جتنا جنگ کے میدان کا کھیل کے میدان سے۔

لیکن اقتدار سے محرومی کے لگ بھگ تین ماہ بعد بھی کیا عمران کے بارے میں وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے دورِ حکمرانی کی غلطیوں کا احساس کیا ہے اور ان غلطیوں کے ایسے ازالے کی جانب قدم بڑھایا ہے جو نہ صرف انہیں سیاسی استحکام مہیا کر سکیں بلکہ بطور ایک قومی لیڈر ان کے تشخص اور تاثر کو سنوار سکیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا عمران نے ایسے راستے کی طرف قدم بڑھایا ہے جہاں خود احتسابی منزل پر پہنچنے کی سب سے پہلی شرط ہو۔ ان سوالات کا جواب کم از کم میرے پاس تو نفی میں ہے۔

غریدہ کے بقول بجائے اس کے کہ خان صاحب اپنے دور اقتدار کے گریبان میں جھانکتے، انہوں نے الٹا دوسروں کو موردالزام ٹھہرانے کی روش اپنانے میں آسانی جانی۔ نتیجہ کیا نکلا کہ تین ماہ کے اندر اندر ہی غیر ملکی سازش، حقیقی آزادی، غلامی نامنظور کے آرٹیفیشل گیس کے غبارے میں سے ہوا نکلنا شروع ہوگئی اور اب آہستہ آہستہ نائیلون کے ربڑ جیسی ایک پُھس پُھسی سی باقیات ہی ہاتھ میں رہ گئی ہیں، جن میں منہ بھر بھر کر ہوا بھرنے کی دوبارہ کوشش کی جا رہی ہے۔ روزمرہ کا یہ عالم رہ گیا ہے کہ خان صاحب کبھی ٹویٹ کرتے ہیں، کبھی تنہا پریس کانفرنس سجا لیتے ہیں، کبھی قوم سے خطاب کے تین چار سالہ چسکے کو دوبارہ دہرا لیتے ہیں، کبھی میڈیا اور سوشل میڈیا کے حمایتیوں کی محفل لگا لیتے ہیں، کبھی ڈیجیٹل رعنائیوں کی رونق بڑھا لیتے ہیں، زیادہ بور ہو جائیں تو ایک آدھ انٹرویو کروا لیتے ہیں، لیکن ان کے پاس کہنے کو کچھ نیا نہیں ہے۔ کوئی ایسی نئی بات نہیں جو قوم تو دور کی بات خود انکے اپنے ووٹرز سپورٹرز کو چونکا دے۔ حد تو یہ ہو گئی ہے کہ کسی ٹی وی چینل پر عمران خان کا انٹرویو ہو تو اب تو برقی تاروں میں بھی کوئی کرنٹ نہیں دوڑتا، ان کی گفتگو، ان کے بیانات معمول کا حصہ بنتے جا رہے ہیں، جن میں عوام الناس کی بڑی تعداد کے لیے اب دلچسپی یا توجہ کا عنصر باقی نہیں رہا۔

غریدہ کا کہنا ہے کہ عمران خان اقتدار سے نکلنے کے بعد مسلسل غلطیوں پر غلطیاں دہرا رہے ہیں۔ قومی اسمبلی سے استعفوں کی صورت میں جو سب سے بڑا کلہاڑا تحریک انصاف نے اپنے پاؤں پر مارا، اب باقی زخم بھی اسی چوٹ کی وجہ سے کھائے جا رہے ہیں۔ بجائے سڑکوں پر جلسے جلوسوں کے، تحریک انصاف قومی اسمبلی میں موجود رہ کر موجودہ اپوزیشن کے لیے دردسر اور حکومت کے چلنے کے راستے میں بڑی رکاوٹ کے طور پر سامنے آ سکتی تھی۔ لیکن استعفے دے کر ایک ایسا سنہرا سیاسی موقع گنوایا گیا، جس پر اعلیٰ ترین عدلیہ نے بھی گذشتہ روز افسوس کا اظہار کیا۔ وگرنہ مہنگائی، لوڈشیڈنگ، پیٹرول کی قیمت، بجٹ وغیرہ وغیرہ پر جو احتجاج اور اپوزیشن اسمبلی کے اندر سے ہو سکتی تھی، اس کا عشر عشیر بھی سڑکوں پر جلسے کرنے سے موجودہ صورت حال میں حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح حکومت کے لیے بجٹ منظوری کے راستے میں تحریک انصاف قومی اسمبلی میں بہت بڑی رکاوٹ بن کر سامنے آ سکتی تھی۔ لیکن حقیقی اپوزیشن کی عدم موجودگی میں بجٹ پر بحث کا پارلیمانی عمل محض ایک تماشہ ہی بنا۔

غریدہ فاروقی کا کہنا ہے کہ اگر عمران خان نے سڑکوں پر ہی اپوزیشن کرنی ہے اور اپنے حالیہ ’سازش، غلامی، حقیقی آزادی‘ کے کمزور پڑتے بیانیے کو ہی مشعل راہ بنانا ہے تو پھر لازم ہے کہ خان صاحب اس مقصد کی مخلصی اور پختگی کو بھی واضح کریں۔

تاحال تاثر تو فقط یہی ہے کہ یہ صرف اور صرف اقتدار اور مفادات کی جنگ ہے جس میں براستہ من پسند راولپنڈی روڈ حتمی منزل وزیراعظم ہاؤس ہے۔ اس کام کے لیے خان صاحب پھر جتنے مرضی جلسے منعقد کرتے رہیں آخر میں لات والا چی گویرا ہی بننا پڑے گا اور یہ لات کتنی بار پڑتی رہے گی اس کا بھی کوئی شمار نہ ہو گا۔ لہذا عمران خان نے اگر حقیقی آزادی اور حقیقی کامیابی حاصل کرنی ہے تو پہلے حقیقی چی گویرا بنیں، لیکن اگر صرف مصلحت کے تحت ہی جارحانہ مزاحمت کرنی ہے تو پھر چی گویرا کے فلسفے کو خود ہی لات مار دیں اور جلسے جلوسوں اور کمزور بیانیے پر اپنا اور عوام کا وقت اور پیسہ ضائع نہ کریں۔ بہتر ہے کہ خان صاحب خود کو اور اپنی جماعت کو سنبھالیں اور اتنا تگڑا اور مضبوط بنائیں کہ وقت آنے پر آئندہ لات نہ کھانی پڑے۔

Related Articles

Back to top button