عمران نے اپنے فالورز کو بدتمیز اور بد تہذیب کیسے بنایا؟


سینئر صحافی اور تجزیہ کار انصار عباسی نے کہا ہے کہ عمران خان نے معاشرے میں نوجوانوں کی ایک ایسی پود تیار کر دی ہے جو نہایت بدتمیز اور بدتہذیب ہے اور سیاسی طور پر ایسی عدم برداشت کا شکار ہے کہ اپنے لیڈر کی بات کے خلاف کوئی عقل کی بات سننا ہی نہیں چاہتی، یہ انتہا پسند نئی پود کسی صورت اپنے سیاسی مخالفین کو برداشت کرنے کو تیار نہیں اور جو اختلاف کرے اُس پر جھوٹے الزامات کی بارش کر دیتی ہے۔ انکا کہنا ہے کہ خان صاحب اپنے ووٹرز اور سپورٹرز میں نفرت کوٹ کوٹ کر بھرنے کا مشن لیکر نکلے ہوئے ہیں جس کا انہیں تو شاید کوئی فائدہ ہو گا لیکن پاکستان کو نقصان ہی نقصان ہو رہا ہے۔

روزنامہ جنگ کے لئے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں انصار عباسی کہتے ہیں اگر ہمیں اپنی قوم، اپنے لوگوں اور خصوصاً اپنے نام نہاد پڑھے لکھے طبقے اور نوجوان نسل کے کردار اور اخلاقی پستی کو دیکھنا ہے تو اپنے سوشل میڈیا کو دیکھ لیں۔ بدتمیزی، بد تہذیبی، گالم گلوچ اور وہ بھی ایسی کہ جس کی کوئی حد نہیں۔ یہ سب کچھ آپ کو سوشل میڈیا پر بڑی مقدار میں ملے گا جہاں تمیز سے جواب دینے اور بات کرنے کا تو کوئی چانس ہی نہیں رہا، خاص طور پر سیاسی اختلاف کے معاملے میں عدم برداشت کا چلن اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ عمران خان کے تربیت یافتہ یوتھیے اس سوچ کے خلاف کوئی بات سننے کو تیار نہیں جس کے انجکشن خان صاحب انہیں بھر بھر کر لگا رہے ہیں۔ انصار عباسی کے مطابق افسوسناک ترین بات یہ ہے کہ اس بدتمیزی، بدتہذیبی اور گالم گلوچ میں تحریک ِانصاف کا سوشل میڈیا ونگ سب سے آگے ہے۔ افسوس کا لفظ میں نے اس لئے استعمال کیا ہے کہ ایک تو تحریک انصاف ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہونے کی دعویدار ہے، دوسرا یہ کہ اس جماعت کے ووٹرز اور سپورٹرز اس عمران خان کے پیروکار ہیں جو کہ معاشرے کی کردار سازی کا مسلسل ڈھنڈورا پیٹتے ہیں اور بطور باپ نوجوانوں کے اخلاق اور اُن کی تربیت پر زور دیتے ہیں، اسکے علاوہ موصوف اسلامی تعلیمات اور سیرت نبوی کے حوالے دیتے ہوئے بھی نہیں تھکتے۔ لیکن خان صاحب کو یہ سوچنا اور سمجھنا چاہئے کہ وہ جن اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اس قوم کو سدھارنے کی بات کرتے ہیں، اُن کے اپنے ماننے اور چاہنے والے ووٹرز اور سپورٹرز ان تعلیمات کے بالکل برخلاف کیوں جا رہے ہیں؟

انصار عباسی کہتے ہیں کہ اگر پاکستانی سیاسی جماعتوں کا جائزہ لیا جائے تو بدتمیزی، بدتہذیبی اور گالم گلوچ کے کلچر کا سب سے زیادہ تعلق تحریک انصاف سے نکلتا ہے؟ ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم اسلامی تعلیمات، کردار سازی اور بہترین تربیت کی بات کریں لیکن جب عمل کا وقت آئے تو اسکے بالکل برعکس چلتے نظر آئیں۔ انکا کہنا ہے کہ سیاسی اختلاف کی بنیاد پر جس انداز میں تحریک انصاف اور اس کا سوشل میڈیا دوسروں پر بہتان تراشی کرتا ہے اور کردار کشی کی باقاعدہ منظم مہم چلاتا ہے اُس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اسلام کا نام لینے اور اسلامی تعلیمات کا حوالہ دینے والے خان صاحب کی تو کوشش ہونی چاہئے کہ اُن کے ساتھی اور فالوورز دوسروں کے لئے بہترین اخلاق کی وجہ سے رول ماڈل ہوں، لیکن معاملہ اس کے بالکل الٹ ہے اور خان صاحب کی قربت بھی پارٹی میں وہی لوگ حاصل کرتے ہیں جو زیادہ بدزبان اور بدتمیز ہوتے ہیں۔

ایسے میں یہ کہا جائے تو غلط نہیں گا کہ عمران نے معاشرے میں نوجوانوں کی ایک ایسی پود تیار کی ہے جو نہایت بدتمیز اور بدتہذیب ہے اور اپنے سیاسی مخالفین کو برداشت نہیں کرتی، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عمران نے اپنے فالورز کو سیاسی مخالفین سے نفرت کرنے کا درس دیا ہے۔ خان صاحب یہ بھی دیکھیں کہ یورپ، امریکہ اور دوسرے ممالک میں بسنے والے پاکستانی، جنکی ایک بڑی تعداد پڑھی لکھی تصور کی جاتی ہے، وہ بھی ان کی اندھی تقلید میں اختلاف کرنے والوں کے ساتھ اخلاق اور تہذیب کی ساری حدیں پھلانگ جاتی ہے۔ خان صاحب مسلسل دعویٰ کرتے ہیں کہ 22 کروڑ عوام اُن کے ساتھ ہیں جنکی مدد سے وہ معاشرے میں انقلاب لا رہے ہیں۔ لیکن کوئی پوچھے کہ جب عوام آپ کے ساتھ ہیں تو پھر آپ نفرت کا ہتھیار کیوں استعمال کر رہے ہیں، اور بدتمیزی اور بدتہذیبی کی کھل کر مذمت کیوں نہیں کرتے، خان صاحب اپنا سوشل میڈیا بریگیڈ چلانے والوں کو کیوں نہیں سمجھاتے کہ وہ اختلافِ رائے کا اظہار تمیز کے دائرے میں رہ کر کریں اور جھوٹ، بہتان تراشی اور لغو الزامات سے باز رہیں؟ عمران کو اپنے پارٹی رہنماؤں اور سوشل میڈیا ٹرولز کے رویے کا بھی جائزہ لینا چاہئے اور ایسا کرتے وقت اُن اسلامی تعلیمات کو بھی اپنے ذہن میں رکھنا چاہئے جن کا وہ بار بار حوالہ دیتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ خان صاحب کی سمجھ میں آ جائے اور وہ کسی بڑی خرابی کا باعث بننے کی بجائے کسی بڑی بھلائی کا سبب بن جائیں۔

Related Articles

Back to top button