عمران کی فوج مخالف مہم کے لیے KP میں 87 کروڑ مختص


تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں عمران خان کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد سے سوشل میڈیا پر فوج اور فوجی قیادت کے خلاف واحیات اور افسوسناک ٹرینڈ چلانے والی جماعت تحریک انصاف کی خیبر پختونخواہ حکومت نے کپتان کی زہریلی پراپیگنڈہ مہم کو مزید تیز کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر 1100 سے زائد سوشل میڈیا انفلوئنسرز کو 25000 روپے ماہانہ پر فوری بھرتی کر لیا ہے۔ اس مقصد کے لیے سرکاری بجٹ میں 87 کروڑ روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ ان بھرتیوں کا بنیادی مقصد پی ٹی آئی کی فوجی قیادت مخالف مہم کو مزید ایندھن فراہم کرنا ہے۔ اسی طرح حکومت پنجاب کو بھی فوری طور پر 1500 سے زائد سوشل میڈیا انفلوئنسرز بھرتی کرنے کی ہدایت کر دی گئی یے جو کہ عمران خان کا اسٹیبلشمینٹ مخالف بیانیہ آگے بڑھائیں گے۔

سرکاری خرچے پر بھرتی ہونے والا تحریک انصاف کا سوشل میڈیا ٹرول بریگیڈ ڈاکٹرارسلان خالد کی زیر نگرانی کام کرے گا جنہیں پنجاب میں حکومت کی تبدیلی کے بعد وزیر اعلیٰ کا مشیر مقرر کردیا گیا ہے۔ یہ وہی ارسلان خالد ہیں جن کی بشریٰ بی بی کے ساتھ ایک ٹیلی فونک گفتگو کی آڈیو وائرل ہو گئی تھی جس میں وہ عمران کے سیاسی مخالفین کے خلاف غداری کا ٹرینڈ چلانے کی ہدایات دیتی سنائی دیں۔ اس آڈیو میں ایک خاتون کو یہ کہتے سنا جاسکتا ہے کہ ’خان صاحب نے آپ کو کہا تھا غداری کا ہیش ٹیگ چلانا ہے۔۔۔ آج کل آپ لوگوں کو بہت ایکٹیو ہونا چاہیے۔۔۔ ان سب کو غداری کے ساتھ لنک کرنا ہے اور یہ پراپیگنڈہ کرنا یہ سب لوگ خود کو بچانے کے لیے غداروں کے ساتھ مل گئے ہیں۔ بشری بی بی نے ارسلان خالد کو مزید ہدایات دیتے ہوئے کہا کہ ’غدار باہر کی قوتیں بھی ہیں اور اندر کی بھی جیسا کہ سب آپ کو پتا ہے۔۔۔ ٹرینڈ بنا دینا ہے کہ ان قوتوں کو بھی پتا ہے کہ ملک اور خان کے ساتھ غداری ہو رہی ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ عمران کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا بریگیڈ نے فوج اور آرمی چیف جنرل باجوہ کے خلاف غداری کا جو ٹرینڈ چلا آیا تھا اس کے پیچھے بھی عمران اور بشری بی بی کا ہاتھ تھا۔

یاد رہے کہ پچھلے ہفتے ایک ہیلی کاپٹر حادثے میں کور کمانڈر کوئٹہ لیفٹیننٹ جنرل سرفراز احمد کی شہادت کے بعد سوشل میڈیا پر جو افسوسناک مہم چلائی گئی اس میں بھی کپتان کے یوتھیوں اور عمرانڈوز کا کردار سامنے آ چکا ہے اور ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے ایف آئی اے، آئی بی اور آئی ایس آئی کی ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بھی بنادی گئی ہے۔ ایسے میں ناقدین کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے 1100 سوشل میڈیا انفلوئنسرز بھرتی کرنے کا مقصد پی ٹی آئی کی فوج مخالف نفرت انگیز مہم کو مزید ایندھن فراہم کرنا ہے جس کے لیے عوام کے ٹیکسوں سے اکٹھا کیا گیا سرکاری پیسہ خرچ کیا جائے گا۔ وزیر اعلی محمود خان کی صوبائی حکومت نے مختلف اضلاع سے ایک ہزار 96 میڈیا انفلوئنسرز بھرتی کیے ہیں جن میں 37 خواتین ملازمین بھی شامل ہیں۔ سرکاتی دستاویزات کے مطابق منصوبے کے لئے 87 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں لیکن امکان ہے کہ یہ بجٹ ایک ارب روپے تک چلا جائے گا۔

خیبرپختونخوا حکومت کے ترجمان کے مطابق سوشل میڈیا انفلوئنسرز کو ایک سالہ کنٹریکٹ پر رکھا گیا ہے اور ان کو ماہانہ 25 ہزار روپے تنخواہ دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ انفلوئنسرز حکومت کی پالیسیوں اور کارکردگی کو سوشل میڈیا پر اجاگر کریں گے اور حکومت کے خلاف منفی پراپیگنڈے اور جھوٹی خبروں کا مقابلہ کریں گے۔ لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا ٹرولز کی بھرتی کا بنیادی مقصد عمران خان کے ایجنڈے کے مطابق فوج اور دیگر اداروں پر گند اچھالنا اور انہیں دباؤ میں لانا ہے۔ یاد رہے کہ تحریک انصاف پر صحافیوں، سیاسی لیڈروں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو ہراساں کرنے کے الزامات لگتے ہیں۔ ڈیجیٹل تحفظ پر کام کرنے والے کارکنوں کا ماننا ہے کہ اب ٹرولنگ کو باقاعدہ سرکاری خزانے سے معاونت حاصل ہو گئی ہے اور سیاسی کارکنوں، صحافیوں کو ہراساں کرنے میں مزید تیزی ائے گی۔معروف صحافی اور اینکر پرسن عاصمہ شیرازی نے بتایا کہ بظاہر مجھے ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی قوم کے ٹیکس کے پیسوں سے جو نیا ‘سوشل میڈیا بریگیڈ’ بھرتی کرنے کی خبریں آئی ہیں، اس کا مطلب یہی ہے کہ سرکاری خزانے سے گالم گلوج بریگیڈ کا وجود مضبوط کیا جائے گا تاکہ تنقیدی آوازوں کو خاموش کیا جائے۔

ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر نگہت داد کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا انفلوئنسرز کے نام پر خیبر پختونخوا میں جو 1100 افراد بھرتی کیے گئے ہیں وہ تحریک انصاف کے فنڈز سے بھرتی نہیں کیے گئے بلکہ حکومتی خزانے سے بھرتی کیا گیا ہے جس پر ہمارے ٹیکس کا پیسہ خرچ کیا جائے گا۔ لہذا ضروری ہے کہ جو لوگ بھرتی کیے گئے ہیں ان کے نام اور دیگر تفصیلات جاری کی جائیں اور ساتھ اس پروجیکٹ کے ٹی او آرز بھی پبلک کیے جائیں۔ نگہت داد نے کہا کہ ان کے نام پبلک کرنے سے کم از کم یہ معلوم ہو جائے گا کہ انٹرنیٹ پر ان لوگوں کا ماضی کیا ہے اور آج کل وہ انٹرنیٹ پر کیا مواد لگا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تحقیقاتی اداروں سمیت صوبائی اور وفاقی پبلک اکاؤنٹس کمیٹیوں کو حالیہ بھرتیوں کی تحقیقات کرنی چاہئیں اور انکی تمام تفصیلات منظر عام پر لانی چاہئیں۔

Related Articles

Back to top button