فارن فنڈنگ کیس میں عدالت نے عمران کو بڑی ریلیف دے دی


سابق وزیراعظم عمران خان کو فارن فنڈنگ کیس میں تب ایک بڑی ریلیف مل گئی جب اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے فنڈنگ کیس کا فیصلہ 30 روز میں کرنے کا حکم معطل کر دیا، یہ فیصلہ پی ٹی آئی کی انٹرا کورٹ اپیل پر سنایا گیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے جسٹس محسن اختر کیانی کے سنگل بینچ کا فیصلہ معطل کیا ہے۔
25 اپریل کو پی ٹی آئی کے فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ 30 روز میں سنانے سے متعلق عدالتی فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل کی سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس بابر ستار پر مشتمل دو رکنی بینچ نے کی۔ دوران سماعت پی ٹی آئی کے وکیل نے بتایا کہ سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو پیش کی گئی تھی۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ جب سکروٹنی کمیٹی نے کہہ دیا کہ فارن فنڈنگ کی دستاویزات قابل تصدیق نہیں تو اب کیس میں کیا کارروائی چل رہی ہے؟ انہوں نے کہا کہ متعلقہ قانون کے مطابق الیکشن کمیشن ہر سال سیاسی جماعتوں کے اکاؤنٹس کی سکروٹنی کرتا ہے اور اگر ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہو جائے تو اسے ضبط کیا جا سکتا ہے، چیف جسٹس نے پوچھا کہ الیکشن کمیشن سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ کے بعد اب کیا کر رہا ہے؟
پی ٹی آئی کے وکیل خاور شاہ نے عدالت کو بتایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سنگل بینچ نے جو فیصلہ دیا تھا اس میں سخت ریمارکس استعمال کیے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ بنیادی طور پر یہ ایک ممنوعہ فنڈنگ کا کیس ہے، فارن فنڈنگ کا نہیں، انکا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کو 30 روز میں فیصلہ کرنے کا حکم دینا سنگل بینچ کا اختیار نہیں تھا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے، لہٰذا ہم 30 روز میں فیصلہ کرنے کے حکم کو معطل کرتے ہیں۔ عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان سمیت 17 سیاسی جماعتوں کو نوٹس بھی جاری کر دیا۔ عدالت نے تمام تر 17 سیاسی جماعتوں اور الیکشن کمیشن سے 17مئی تک جواب طلب کرلیا جبکہ پی ٹی آئی کی انٹرا کورٹ اپیل پر کیس کے پٹیشنر اکبر ایس بابر کو بھی نوٹس جاری کیا ہے۔
خیال رہے کہ پی ٹی آئی نے 20 اپریل کو فارن فنڈنگ کیس بارے اسلام آباد ہائی کورٹ کے الیکشن کمیشن کو جاری کردہ حکم نامے کے خلاف درخواست دائر کی تھی۔ پی ٹی آئی کے جنرل سیکریٹری اسد عمر کی جانب سے کی گئی اپیل میں کہا گیا تھا کہ سنگل بینچ نے 30 روز میں فیصلہ سنانے کی ہدایت جاری کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم عمران خان کو ممنوعہ ذرائع سے فنڈز حاصل کرنے میں ملوث ہونے پر نتائج سے خبردار کیا تھا۔ پی ٹی آئی کے درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ فارن فنڈنگ کے ذرائع خفیہ رکھے جائیں لیکن کیس کا فیصلہ 30 روز میں سنانے کا حکم دینے والے جسٹس محسن اختر کیانی نے اسے ناقابل قبول قرار دیا تھا۔ اپیل میں کہا گیا تھا کہ سنگل رکنی بینچ نے کہا کہ ای سی پی بذات خود ایک آئینی ادارہ ہے اور اسلام آباد ہائی کورٹ کا دائر اختیار نہیں کہ وہ اس کی نگرانی کرے۔ درخواست میں دلیل دی گئی تھی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا حکم الیکشن کے اختیارات میں دخل اندازی‘ کے مترادف ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ای سی پی کے پاس موجود معاملے کی نوعیت تفتیشی ہے اور جج کو یہ اختیار حاصل نہیں تھا کہ وہ ایسی سخت زبان کا استعمال کرے جو پی ٹی آئی یا اسکی قیادت کے لیے باعث نقصان ہو‘۔ پی ٹی آئی کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کردہ ایک اور درخواست میں کہا گیا کہ 17 دیگر سیاسی جماعتوں کی فارن فنڈنگ کی جانچ پڑتال بھی کی جائے۔ درخواست پی ٹی آئی کے ایڈیشنل سیکریٹری جنرل عامر محمود کیانی کی جانب سے انور منصور خان کے توسط سے دائر کی گئی تھی۔ درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ الیکشن کمیشن کو ہدایت کی جائے کہ وہ پارٹی کے فارن فنڈنگ کیس کی روزانہ سماعت شروع ہونے سے قبل 17 سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ بارے معلومات کے حصول کے لیے اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے رجوع کرے۔ درخواست کے مطابق پی ٹی آئی واحد جماعت ہے جسے روزانہ کی کارروائی کی صورت میں احتساب کا سامنا ہے، لہٰذا انہوں نے درخواست کی کہ عدالت دیگر جماعتوں کو بھی جوابدہ ٹھہراتے ہوئے اس ’تعصب‘ کو ختم کرے۔درخواست میں کہا گیا تھا کہ الیکشن کمیشن سے بارہا کہا گیا کہ وہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی فنڈنگ کے ذرائع کی تصدیق کرے، لیکن کمیشن نے مبینہ طور پر ان درخواستوں کو نظر انداز کیا۔
تاہم یہ حقیقت ہے کہ تحریک انصاف کا فارن فنڈنگ کیس پچھلے سات برس سے لٹکا ہوا ہے جبکہ پی ٹی آئی نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے خلاف جوابی فارن فنڈنگ کیس پچھلے برس دائر کیے تھے۔

Related Articles

Back to top button