فرح گوگی کے کیسز ختم کرنا ٹھیک ہے تو شہباز کے کیسز غلط کیوں؟


پارلیمنٹ سے نیب آرڈیننس میں ترامیم کے بعد احتساب عدالتوں کی جانب عمران دور حکومت میں سیاسی انتقام کا نشانہ بننے والے پی ڈی ایم رہنماؤں کے خلاف کیسز میں عدالتی دائرہ اختیار ختم کیے جانے کو پی ٹی آئی کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، حالانکہ پنجاب میں برسر اقتدار آتے ہی اسکی اپنی حکومت نے سب سے پہلے بدنام زمانہ فرح خان گوگی کے خلاف محکمہ اینٹی کرپشن میں زیر سماعت کیسز کا خاتمہ کیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ عمران خان کی ہدایت پر فرح گوگی کے خلاف کیسز کا خاتمہ کرانے کے لیے وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی نے ہنگامی بنیادوں پر کارروائی کی اور جب ڈائریکٹر جنرل اینٹی کرپشن رانا عبدالجبار نے مزاحمت کی تو انہیں ان کے عہدے سے ہٹا دیا۔

دوسری جانب پارلیمنٹ سے آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد وزیراعظم شہباز شریف، سابق وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف سمیت دیگر ملزمان کے خلاف 50 سے زائد ریفرنس عدالتی دائرہ اختیار ختم ہونے پر نیب کو واپس کر دیے گئے ہیں اور تحریک انصاف اس عمل پر شور مچا رہی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کیسز ایسے ہیں جو عمران دور حکومت میں بنائے گئے اور جن میں شہباز شریف سمیت اپوزیشن کے کئی قائدین گرفتار بھی ہوئے لیکن الزام ثابت نہ ہونے پر ضمانتیں مل گئیں۔ تحریک انصاف والوں کا کہنا ہے کہ یہ عمل اسلئے غیر قانونی ہے کہ نیب ترامیم کا معاملہ ابھی سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے اور ملنے والا یہ ریلیف عارضی بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ کی جانب سے کی گئی قانون سازی اور ترامیم کو سپریم کورٹ کسی صورت ریورس نہیں کر سکتی۔

احتساب عدالتوں کی جانب سے جن ریفرنسز کو نیب کو واپس بھجوایا گیا ہے ان میں وزیر اعظم شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے خلاف رمضان شوگر ملز کا ریفرنس، سابق وزیراعظم اور سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کے خلاف رینٹل پاور کے چھ ریفرنس، سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف یو ایس ایف فنڈز کا ریفرنس، سینیٹر سلیم مانڈووی والا اور اعجاز ہارون کے خلاف کڈنی ہلز ریفرنس، سابق وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا مہتاب عباسی کے خلاف ریفرنس، اور پیپلزپارٹی کی سینیٹر روبینہ خالد کے خلاف لوک ورثہ خرد برد کے ریفرنسز شامل ہیں۔ قومی احتساب بیورو کے ترجمان ندیم خان کا کہنا ہے کہ احتساب عدالتوں سے یہ مقدمات نیب کو اس لیے واپس بھجوائے گئے کیونکہ ترامیم میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ نیب 50 کروڑ سے کم مالیت کی بدعنوانی کے مقدمات کی تحقیقات نہیں کر سکتا۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ سے نیب آرڈیننس میں ترامیم کے بعد ملک کی مختلف عدالتوں میں زیر التوا مقدمات نیب کو واپس بھجوائے جا رہے ہیں۔ نیب ترجمان نے اُن کیسوں کی تعداد کے بارے میں تو نہیں بتایا جو اب تک واپس کیے جا چکے ہیں تاہم اُن کا کہنا تھا کہ اس بارے میں پراسیکیوشن برانچ اپنا کام کر رہی ہے اور وہ ان کیسز کے مستقبل کے بارے میں اپنی رائے دیں گے۔ انھوں نے کہا کہ جب نیب کو بھجوائے گئے تمام ریفرنسز کی فہرست حتمی شکل اختیار کر لے گی تو پھر اس کے بعد یہ معاملہ نیب بورڈ کے سامنے رکھا جائے گا جو ان مقدمات کے مستقبل کے بارے میں حتمی فیصلہ کرے گا۔

دوسری جانب فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ جس طریقے سے جلد بازی میں نیب آرڈیننس میں ترامیم کی گئی ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ترامیم سے جرائم پیشہ افراد کے لیے کرپشن کے دروازے کھول دیے گئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ان ترامیم میں 50 کروڑ روپے کی رقم رکھی گئی ہے کہ اس رقم کی تحقیقات نیب کے زمرے میں آئیں گی لیکن اس سے زیادہ رقم کی بدعنوانی کے مقدمات بہت کم ہوں گے۔ فواد کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کا از خود نوٹس لے رکھا ہے اور اس پر اب تک جتنی بھی سماعتیں ہوئی ہیں ان میں عدالت نے ترامیم پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اس لیے اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ سپریم کورٹ نیب آرڈیننس میں ہونے والی ترامیم پر نظرثانی کے لیے اس کو دوبارہ پارلیمنٹ کو بھجوا دے۔ تاہم وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ سپریم کورٹ پارلیمنٹ کی جانب سے کی گئی ترامیم ریورس کر دے گی وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں چونکہ آئین کے تحت پارلیمنٹ سپریم ہے اور عدالت اس کی قانون سازی کو رد نہیں کر سکتی۔

Related Articles

Back to top button