فضل الرحمن کی JUI بلوچستان حکومت کا حصہ بننے کو تیار


بلوچستان میں ایک بار پھر سیاسی محاذ پر ہلچل شروع ہے اور چار برس سے اپوزیشن بینچوں پر بیٹھی مولانا فضل الرحمان کی جماعت جمعیت علما اسلام صوبائی حکومت کا حصہ بننے جا رہی ہے، لیکن وزارتوں کی تعداد اور مطلوبہ محکموں کے قلمدانوں پر وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کے ساتھ مذاکرات میں ڈیڈ لاک قائم ہے جسے توڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

جمعیت علما اسلام کے رکن بلوچستان اسمبلی عبدالواحد صدیقی کے مطابق ’ہمیں وزیراعلٰی عبدالقدوس بزنجو نے بلوچستان حکومت میں شمولیت کی دعوت دی ہے جبکہ مرکزی قیادت نے بھی جے یو آئی کے صوبائی اراکین اسمبلی کو بزنجو حکومت میں شامل ہونے کی اجازت دے دی ہے۔‘ ان کا کہنا ہے کہ ’ہماری جماعت نے مولانا عبدالواسع کی سربراہی میں اپوزیشن لیڈر ملک سکندر ایڈووکیٹ اور رکن اسمبلی یونس عزیز زہری پر مشتمل تین رکنی کمیٹی بنائی ہے۔‘ اب یہ فیصلہ ہونا باقی ہے کہ جمعیت کس حیثیت سے حکومت میں شامل ہو گی۔ کمیٹی صوبائی حکومت سے مذاکرات کر رہی ہے جس میں چھ مطالبات پیش کیے گئے ہیں تاہم ان مطالبات کے بارے میں انہوں نے تفصیل نہیں بتائی۔

حکومتی ذرائع نے بتایا ہے کہ جے یو آئی نے کم از کم چار وزارتیں مانگی ہیں- سینئر صحافی اور تجزیہ کار رشید بلوچ کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں عبدالقدوس بزنجو کے پاس اتنی وزارتیں دینے کی گنجائش نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد بلوچستان کابینہ 12 وزارتوں اور پانچ مشیروں تک محدود رکھنے کی آئینی قدغن موجود ہے جبکہ اس وقت صرف وزارت خزانہ خالی ہے۔وزیراعلٰی جمعیت علما اسلام کو ترقی و منصوبہ بندی کی ایک وزارت دینے کو تیار ہیں جو اس وقت بلوچستان عوامی پارٹی کے نور محمد دمڑ کے پاس ہے۔ ماضی میں بھی یہ وزارت ایک طویل عرصہ تک جمعیت کے پاس رہی ہے۔انہوں نے بتایا کہ وزیراعلٰی قلم دانوں میں تبدیلی کرنے کے لیے تو تیار ہیں تاہم کابینہ سے کسی وزیر یا مشیر کو فارغ کرنے پر راضی نہیں۔ اس سے قبل ایسی اطلاعات سامنے آرہی تھیں کہ وزیراعلٰی جمعیت کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے کابینہ سے اپنی ہی جماعت بی اے پی اور اتحادیوں کے کچھ وزرا اور مشیروں کو فارغ کر رہے ہیں۔

تاہم بلوچستان عوامی پارٹی کے ترجمان اور صوبائی وزیر مواصلات و تعمیرات سردار عبدالرحمنٰ کھیتران نے اس کی تردید کی تھی۔وزیراعلٰی عبدالقدوس بزنجو کہہ چکے ہیں کہ جے یو آئی کو اس کی عددی حیثیت کے مطابق کابینہ میں جگہ دی جائے گی۔بلوچستان کے 65 رکنی ایوان میں جمعیت علما اسلام کے11 ارکان اسمبلی ہیں اور وہ حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت ہے۔ اپوزیشن کی دوسری اہم جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی کے 10 اراکین ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ عبدالقدوس بزنجو نے گزشتہ دنوں کراچی میں بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل سے ملاقات کرکے انہیں بلوچستان حکومت میں شمولیت کی دعوت دی تاہم اختر مینگل نے انکار کیا۔

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ جام کمال کو وزارت اعلٰی سے ہٹانے میں جے یو آئی اور بی این پی نے عبدالقدوس بزنجو کا بھرپور ساتھ دیا اور اس کے بدلے میں اب دونوں جماعتیں حزب اختلاف میں ہوتے ہوئے بھی مراعات اور فائدے اٹھا رہی ہیں۔ ان کے بقول ’نئے انتخابات میں وقت کم رہ گیا ہے بی این پی مختصر وقت کے لیے حکومت میں آنے کو تیار نہیں کیونکہ سردار اختر مینگل کو پہلے ہی وفاقی حکومت میں شامل ہونے کے فیصلے پر پارٹی کے اندر سے دباؤ کا سامنا ہے۔تجزیہ کاروں کے مطابق ’عبدالقدوس بزنجو جے یو آئی کی جانب سے جام کمال اور باپ کے کچھ ناراض اراکین کے ساتھ ملکر تحریک عدم اعتماد کی ڈھکی چھپی کوششوں کے بعد کافی متحرک ہو گئے ہیں اور انہوں نے جے یو آئی کو خود حکومت میں شامل ہونے کی دعوت دینے کے ساتھ ساتھ جام کمال اور باپ کے ناراض اراکین کو خوش کرنے کی کوششیں بھی شروع کر دی ہیں۔

سابق وزیراعلٰی جام کمال اپنے آبائی ضلع لسبیلہ کو تقسیم کرکے حب کے نام سے ایک اور ضلع بنانے کے اقدام پر قدوس بزنجو سے ناخوش ہیں۔ قدوس بزنجو نے حب کو ضلع بنا کر جام کے علاقائی حریف بھوتانی برادران یعنی صوبائی وزیر سردار صالح بھوتانی اور رکن قومی اسمبلی سردار اسلم بھوتانی کو سیاسی فائدہ پہنچایا- اب یہ نوٹیفکیشن واپس لینے کا عندیہ دے کر جام کمال کو اپنے قریب لا رہے ہیں۔ تاہم تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ جے یو آئی بی این پی کی حمایت کے بغیر اور باپ پارٹی کے چند ناراض اراکین کے ساتھ مل کر عبدالقدوس بزنجو کے لیے اب مشکلات کھڑی نہیں کر سکتی۔ ان کے مطابق باقی حلقے بھی ایسے موقع پر صوبے میں ہلچل نہیں چاہتے جب انتخابات کے لیے بہت کم وقت رہ گیا ہو۔

ان کا کہنا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی صورت میں بھی عبدالقدوس بزنجو کا متبادل تلاش کرنا بھی مشکل کام ہو گا کیونکہ جام کمال سے اپوزیشن جماعتیں خوش نہیں تھیں جبکہ بزنجو ترقیاتی فنڈز اور افسران کی ٹرانسفر پوسٹنگ سمیت دیگر اقدامات میں اپوزیشن اراکان کو نواز رہے ہیں۔

Related Articles

Back to top button