فواد اورحامد خان کی جنگ میں کون آؤٹ ہونے والا ہے؟


تحریک انصاف کے بانی رکن حامد خان کی کئی برس بعد پارٹی میں واپسی اور پھرتوہین عدالت کیس میں ان کا وکیل بننے کے بعد سے فواد چوہدری کیساتھ لفظی جنگ میں شدت آنے کے بعد کپتان کی جانب سے فواد کو پارٹی میں پیچھے اورحامد خان کو آگے کیے جانے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔

یاد رہے کہ گزشتہ دو ہفتوں سے فواد اور حامد خان ایک دوسرے کے خلاف تابڑ توڑ بیانات دے رہے لیکن عمران خاموش ہیں۔ تاہم پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ فواد کی جانب سے حامد خان کو کُگوگھوڑا قرار دینے پر عمران خان نے ناراضی کا اظہار کیا ہے۔ خیال رہے کہ عمران کے خلاف توہین عدالت کیس میں پیشی سے قبل فواد چوہدری نے ایک انٹرویو میں کہا کہ عمران خان کو عدالت میں کوئی بولنے ہی نہیں دیتا۔۔۔ کبھی حامد خان کُگو گھوڑا بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں، کبھی کوئی وکیل منہ اٹھا کر آ جاتا، حالانکہ توہین عدالت کا معاملہ جج اور ملزم کے مابین ہوتا ہے۔ فواد نے کہا کہ میں نے تو خان صاحب سے کہا تھا کہ آپ نے کس کُگو گھوڑے کو وکیل رکھ لیا ہے، آپ خود عدالت میں بات کریں، حامد خان کو تو کچھ پتہ ہی نہیں ہوتا۔ یاد رہے کہ فواد پچھلی عدالتی پیشی پر حامد خان کی جانب سے اپنے بارے دیے جانے والے ریمارکس پر غصہ نکال رہے تھے، تب کیس کی سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل جہانگیر جدون نے بتایا تھا کہ فواد نے کہا ہے کہ عمران کو توہین عدالت کے کیس میں بلانے کی بجائے خود چیف جسٹس کو عمران خان سے معافی مانگنی چاہیے۔ اس پر حامد خان نے چیف جسٹس اطہر من اللہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت فواد چوہدری کے ایسے بیانات سے لاتعلقی کا اظہار کرتی ہے اور ویسے بھی کبھی ان سے اچھے کی امید بھی نہیں رکھنی چاہیے۔ حامد خان کا یہ بیان سُن کر عمران خان کمرہ عدالت میں مسکرائے تھے۔ یاد رہے کہ اس روز کےبعدفواد چوہدری کو کمرہ عدالت میں بھی داخل ہونے کی اجازت نہیں ملی تھی۔

اس کے بعد ردعمل دیتے ہوئے فواد چوہدری نے حامد خان کو سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے بیٹے ارسلان افتخار کا ’بزنس پارٹنر‘ کہہ کر الزامات لگائے جس پر ارسلان افتخار نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ فواد اپنی بکواس بند کرے اور اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرے کہ حامد خان کے ساتھ تعلق ہونا اعزاز اور فخر کی بات ہے۔ لیکن فواد چوہدری اور حامد خان کے درمیان تنازع کی تاریخ اس سے بھی پرانی ہے۔ یہ 2018 کی بات ہے جب حامد خان نے الزام عائد کیا تھا کہ فواد کے چچا جب چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ تھے تو وہ لوگوں سے ’پیسے لے کر فیصلے کراتے تھے۔‘ واضح رہے کہ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے چچا جسٹس (ر) افتخار حسین چوہدری 7 ستمبر 2002 سے 31 دسمبر 2007 تک چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ رہے ہیں۔ حامد خان نے اپنی کتاب میں فواد کا نام لیے بغیر یہ الزام عائد کیا تھا تاہم بعد میں جب مسلم لیگ ن کےرہنما رانا ثنا اللہ نے فواد کا نام لیا تو حامد خان نے اس کی تصدیق کر دی تھی۔ فواد چوہدری ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔ تاہم یہ معاملہ یہاں ختم نہیں ہوا بلکہ حالیہ تناظر میں دیکھا جائے تو یہ نکتہ آغاز تھا۔

یاد رہے کہ تحریک انصاف کے بانی رکن اور سینئر وکیل، جو کچھ عرصہ قبل پارٹی اور عمران خان دونوں سے ہی نالاں تھے، ایک بار پھر سابق وزیر اعظم اور چیئرمین تحریک انصاف کے قریب نظر آ رہے ہیں۔ اس کا ایک ثبوت توہین عدالت کے ایک اہم کیس میں عمران کی جانب سے اُن کا چناؤ تھا اگرچہ کہ تحریک انصاف کی قانونی ٹیم میں متعدد سینئر وکلا شامل ہیں۔ یہ انتخاب اس تناظر میں زیادہ اہم ہو جاتا ہے جس میں حامد اور عمران کے درمیان دوریاں پیدا ہوئیں۔ پی ٹی آئی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ حامد اور عمران کے مابین اقتدار کے دنوں میں دوریاں رہیں جس کی بنیادی وجہ کپتان حکومت کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں نا اہلی کا ریفرنس دائر کرنا تھا۔

حامد خان نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا ہے کہ اُن کا ہمیشہ اصولی مؤقف رہتا ہے۔ ’عمران خان سے انکا اختلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس پر ہوا تھا۔ حامد خان کے مطابق جب عمران خان نے حکومت گرنے کے بعد ان سے ملاقات کی تو انھوں نے کُھلے دل سے تسلیم کیا کہ جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر ہونے دینا غلطی تھی جبکہ ’آپ کا مشورہ درست تھا۔‘
واضح رہے کہ تحریک انصاف حکومت نے صدارتی ریفرنس میں سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر اپنے خاندان کے برطانیہ میں موجود اثاثے چھپانے کا الزام عائد کرتے ہوئے انھیں ضابطہ کار کی خلاف ورزی کا مرتکب ٹھہرایا گیا تھا۔ سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر اس صدارتی ریفرنس کو سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دے دیا تھا۔

1996 میں تحریک انصاف کا حصہ بننے والے حامد خان نے بتایا کہ وہ عمران کی ذاتی دعوت پر پارٹی کی تشکیل کے عمل کا حصہ بنے اور خود اپنے ہاتھوں سے پارٹی کا پہلا آئین اور مقاصد بھی لکھے۔

حامد خان کے مطابق وہ دوسری جماعتوں سے تنگ آ کر تحریک انصاف کا حصہ بنے تھے اور وہ اب بھی عمران اور تحریک انصاف کو دوسری جماعتوں سے بہتر تصور کرتے ہیں۔ تاہم ان کے مطابق انھوں نے بانی رکن ہونے کے باوجود ’کبھی عمران خان سے ذاتی تعلق بنانے کی کوشش نہیں کی۔ حامد خان کے مطابق ان کا عمران خان سے ایک اختلاف یہ بھی رہتا تھا کہ ’وہ مشاورت کے لیے پارٹی رہنماؤں کو اپنے ذاتی گھر نہ بلایا کریں بلکہ پارٹی سیکریٹریٹ کا انتخاب کیا کریں کیونکہ ذاتی گھر تو ذاتی دوستوں اور رشتہ داروں کے لیے ہوتا ہے۔ ان کے مطابق یہ وہ نکتہ تھا جس پر ان کی اور جہانگیر ترین اور علیم خان کی بحث بھی ہوتی تھی۔ حامد خان کہتے ہیں کہ ’لیڈر کو ہمیشہ اچھا مشورہ دیں تاکہ ان کی رہنمائی ہو سکے۔‘ ان کے مطابق ’اب پارٹی میں ایسا خوشامدی کلچر آ گیا ہے کہ لوگ پہلے لیڈر کے رویے کو دیکھتے ہیں اور پھر اس کی پسند کا مشورہ دیتے ہیں۔‘ ان کے خیال میں اس کلچر کا بعد میں پارٹی اور اس کے لیڈر کو نقصان ہوتا ہے۔

حامد خان کی جب ایک عرصے کے بعد عمران خان سے براہ راست ملاقات ہوئی تو انھوں نے بعد میں میڈیا پر بیان دیا تھا کہ عمران نے تسلیم کیا کہ علیم خان اور جہانگیر ترین نے منفی کردار ادا کیا اور ’انھوں نے مانا کہ علیم خان اور جہانگیر ترین سے متعلق میرے تحفظات ٹھیک تھے۔‘ حامد خان کا کہنا تھا کہ ’لگتا ہے خان صاحب کو احساس ہو گیا کہ پرانے لوگ ہی ٹھیک تھے۔ پارٹی کو دوبارہ اسی نعرے سے آگے بڑھائیں گے، جس طرح بنائی گئی تھی۔‘

Related Articles

Back to top button