فواد چوہدری کے بعد اب کس کی باری آنے والی ہے؟

اپنے کپتان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بدزبانی کی تمام حدیں پھلانگنے والے فواد چوہدری کے جیل جانے کے بعد اب یہ اطلاعات ہیں کہ تحریک انصاف کے کچھ مزید زبان دراز لیڈران بھی جلد ہی پابند سلاسل ہونے والے ہیں۔
فواد چودھری کے بعد پی ٹی آئی کے اعلیٰ قیادت کیلئے بھی گرفتاریوں کی تلوار لٹکنے لگی ہے۔فواد چوہدری کی گرفتاری کے بعد جہاں صوبہ پنجاب میں پی ٹی آئی کے مزید رہنمائوں اور عہدیداران کی گرفتاریوں کی امید ظاہر کی جا رہی ہے۔ وہیں صوبہ خیبرپختونخوا میں بھی کریک ڈائون کا امکان نظر آتا ہے۔ خیال رہے کہ قبل ازیں کے پی کے اور پنجاب میں پی ٹی آئی اور ان کی اتحادی قاف لیگ کی حکومتیں ہونے کے سبب پی ٹی آئی رہنمائوں کو محفوظ چھتری دستیاب تھی۔ حتیٰ کہ گرفتاری سے بچنے کے لیے پارٹی چیئرمین عمران خان نے بھی خیبرپختونخوا میں پناہ لی تھی۔
پس پردہ معاملات سے آگاہ ذرائع نے بتایا کہ خیبرپختونخوا میں پہلے مرحلے میں پی ٹی آئی کے ان رہنمائوں کو گرفتار کیا جا سکتا ہے، جن پر پہلے سے مقدمات درج ہیں۔ ان میں مراد سعید اور شہریار آفریدی شامل ہیں۔ اگست دو ہزار بائیس کے دوسرے ہفتے میں وفاقی حکومت نے اسلام آباد میں دفعہ144 کی خلاف ورزی پر مراد سعید اور شہریار آفریدی کے ساتھ عمران خان، فواد چوہدری، فیصل جاوید، شیخ رشید، اسد عمر، ڈاکٹر شہزاد وسیم، راجہ خرم نواز اور علی نواز اعوان کے خلاف بھی تھانہ آبپارہ میں ایف آئی آر درج کی تھی۔
ذرائع کے مطابق علی امین گنڈاپور بھی حکومت کے ریڈار پر ہیں۔ علی امین گنڈاپور کے خلاف قریباً دو ماہ قبل دسمبر دو ہزار بائیس میں ایف آئی اے نے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے خلاف ایک متنازعہ ٹویٹ کرنے پر قانونی کارروائی کا آغاز کیا تھا۔ تاہم بعدازاں بوجوہ خاموشی چھا گئی تھی۔ تب کے پی کے میں پی ٹی آئی کی حکومت تھی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ علی امین گنڈاپور کے خلاف نہ صرف دو ماہ پرانی ٹویٹ پر جاری ایف آئی اے کی انکوائری آگے بڑھائی جا سکتی ہے۔ بلکہ حال ہی میں ان کی جانب سے ایک اور متنازعہ ترین ٹویٹ نے بھی ان کی گرفتاری کا راستہ ہموار کر دیا ہے۔ اس ٹویٹ کا آغاز انہوں نے ایک گالی سے کیا۔
ادھر پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں موجود ذرائع کا کہنا ہے کہ پنجاب میں فواد چوہدری کی گرفتاری ٹیسٹ کیس ہے، جس کے بعد عمران خان پر ہاتھ ڈالا جائے گا۔ اس سوال پر کہ فواد چوہدری کی گرفتاری پر سوشل میڈیا کے علاوہ روایتی میڈیا سے بھی خاصا سخت ردعمل آرہا ہے۔ حتیٰ کہ پی ٹی آئی مخالف اینکرز اور صحافیوں کی بڑی تعداد بھی گرفتاری پر کڑی تنقید کر رہی ہے۔ ایسے ماحول میں حکومت عمران خان کی گرفتاری کا خطرہ مول لے سکتی ہے؟۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ عمران خان کی گرفتاری کا ہونا ٹھہر گیا ہے۔ فارن فنڈنگ اور توشہ خانہ سمیت دیگر کیسوں میں ان کی گرفتار ی متوقع ہے۔ تاہم اس کے لیے فواد چوہدری کی گرفتاری پر ہونے والا واویلا کم ہونے کا انتظار کیا جا سکتا ہے۔ لیکن عمران خان کو گرفتار کیا جانا طے ہے۔ اب یہ گرفتاری کب ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں اسٹرٹیجی طے کی جارہی ہے۔ لہٰذا کوئی انہونی ہی اس گرفتاری کو ٹال سکتی ہے کہ کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ پاکستانی سیاست کب کیا رخ اختیار کر لے۔ ذرائع کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ فواد چوہدری کو اتنی جلدی ریلیف ملنے کا امکان نہیں۔ بصورت دیگر انہیں لاہور سے اسلام آباد منتقل نہ کیا جاتا۔
پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کو خود بھی اندازہ ہے کہ انہیں گرفتار کرنے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے۔ لہٰذا وہ خاصے خوفزدہ ہیں اور ماضی کی طرح اس گرفتاری سے بچنے کے لیے مختلف حربے اختیار کر رہے ہیں۔ جس میں خواتین اور بچوں سمیت کارکنان کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنا شامل ہے۔ واضح رہے کہ بظاہر عمران خان متعدد بار یہ اعلان کر چکے ہیں کہ وہ گرفتاری سے نہیں ڈرتے اور جیل جانے کے لیے تیار ہیں۔ تاہم گرفتاری سے بچنے کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات سے ان کی بہادری کے دعوے کی قلعی کھل رہی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ غیر جانبداری کا آئینی عہدہ رکھنے والے صدر مملکت عارف علوی کے ذریعے بیان دلانا بھی گرفتاری سے بچنے سے متعلق عمران کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ لاہور میں عمران خان سے ملاقات کے بعد صدر علوی نے کہا تھا کہ ’’عمران خان کی گرفتاری ملک میں آگ لگانے کے مترادف ہو گی‘‘۔ تجزیہ کاروں کے بقول عمران خان نے صدر مملکت کے ذریعے حکومت کو دھمکانے کی کوشش کی ہے کہ ان کو گرفتار کرنے کے نتائج سنگین ہوں گے۔ اب دیکھنا ہے کہ حکومت پر اس انتباہ کا کتنا اثر ہوتا ہے۔
پی ٹی آئی کے اعلیٰ حلقوں تک رسائی رکھنے والے ذرائع نے بتایا کہ وزیرآباد حملے پر مایوس کن عوامی ردعمل نے عمران خان کو بہت مایوس کیا ہے۔ پارٹی چیئرمین کا خیال تھا کہ ان پر حملے کے بعد پارٹی کارکنوں اور ان کے مداحوں کی ایک بڑی تعداد سڑکوں پر نکل آئے گی اور ملک کا نظام جام ہو جائے گا۔ اس کے برعکس سوشل میڈیا پر تو ’’عمران ہماری ریڈ لائن ہے‘‘ کا ہیش ٹیگ چلتا رہا۔ لیکن عملی طور پر میدان میں کوئی نہیں نکلا تھا۔ اب بھی عمران خان کو یہ خوف ہے کہ اگر انہیں گرفتار کر لیا گیا، تو پہلے کی طرح مطلوبہ احتجاج نہیں کیا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق اس خدشے کے سبب پارٹی چیئرمین کا یہ پیغام تقریباً تمام پارٹی رہنمائوں کو پہنچا دیا گیا ہے کہ اگر ان کی ممکنہ گرفتاری عمل میں آنے کے بعد بھی پہلے کی طرح کارکنان اور سپورٹرز گھروں میں بیٹھے رہے تو اس کا خمیازہ پارٹی رہنمائوں کو بھگتنا ہو گا۔ چنانچہ تمام پی ٹی آئی رہنما ممکنہ صورت حال میں زیادہ سے زیادہ کارکنان باہر نکالنے کے ٹاسک پر کام کر رہے ہیں۔
حسب معمول پی ٹی آئی کے ’’کی بورڈ جنگجو‘‘ سوشل میڈیا پر ’’عمران ہماری ریڈ لائن ہے‘‘ کے ہیش ٹیگ چلا رہے ہیں۔ دیکھنا ہے کہ اگر عمران خان کی گرفتاری ہو جاتی ہے تو کیا اس بار پی ٹی آئی رہنما کارکنان کو باہر نکالنے میں کامیاب ہو سکیں گے یا نہیں۔ یا پھر محض سوشل میڈیا پر شور برپا کیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق گرفتاری سے بچنے کے لیے بچوں اور خواتین سمیت کارکنوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کی حکمت عملی کے تحت لاہور کے علاوہ پنجاب کے دوسرے شہروں سے بھی کارکنوں کو زمان پارک کی رہائش گاہ پہنچنے کی ہدایت جاری کی جا چکی ہے۔