لانگ مارچ کی صورت میں پنجاب میں فوری تبدیلی کا فیصلہ

پنجاب میں چوہدری پرویز الہٰی کی حکومت کے خاتمے کی افواہوں میں تیزی آنے کے بعد اب یہ خبر سامنے آئی ہے کہ اگر عمران خان نے حکومت مخالف لانگ مارچ کا اعلان کر دیا تو پنجاب میں تبدیلی کا عمل بھی فوری شروع کر دیا جائے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر عمران خان نے لانگ مارچ شروع نہ کیا تو پہلے مرحلے میں سپیکر ہنجاب اسمبلی کو اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے کہا جائے گا تا کہ خفیہ ووٹنگ کے قانون سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔ نون لیگی ذرائع دعوی کر رہے ہیں کہ پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کے 25 اراکین اسمبلی پرویز الٰہی کا ساتھ چھوڑنے کا فیصلہ کر چکے ہیں، ایسے میں سپیکر کو اعتماد کا ووٹ لینے کو کہا جائے تو انہیں اسمبلی میں اپنی اکثریت ثابت کرنا ہوگی لیکن اگر ناراض اراکین اسمبلی اجلاس میں شریک نہ ہوں تو سپیکر کا کھیل ختم ہو جائے گا لیکن ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر عمران خان نے لانگ مارچ کا اعلان کردیا تو گورنر بلیغ الرحمن فوری طور پر وزیراعلیٰ پرویز الہٰی کو اعتماد کا ووٹ لینے کے لئے کہہ دیں گے تاکہ تحریک عدم اعتماد کے لمبے چکر میں نہ پڑا جائے۔
یاد رہے کہ پنجاب میں عثمان بزدار کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے سیاسی صورت حال عدم استحکام کا شکار ہے جس کی بڑی وجہ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے مابین وزارت اعلیٰ کی کرسی پر براجمان ہونے کی دوڑ ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پرویز الہیٰ پی ٹی آئی کی حمایت سے وزیراعلیٰ تو بن گئے لیکن نہ تو قاف لیگ کے اراکین اسمبلی پرویزالہٰی سے خوش ہیں اور نہ ہی تحریک انصاف والے۔ لہٰذا نون لیگ بھی پنجاب میں ایک بار پھر اپنا وزیراعلیٰ لانے کے لیے سرگرم ہو چکی ہے اگرچہ تحریک انصاف والے پنجاب حکومت کی تبدیلی کے امکان کو سختی سے رد کرتے ہیں لیکن سیاسی تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ پنجاب حکومت کے دن گنے جاچکے ہیں۔
نون لیگی ذرائع کے مطابق پرویز الہٰی حکومت الٹانے کی تیاری تو ہو رہی ہے مگر زیادہ جلد بازی کا مظاہرہ اس لیے نہیں کیا جا رہا کہ عمران خان اور پرویز الہٰی میں فوجی اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات کے حوالے سے پیدا ہونے والے اختلافات کا نتیجہ بھی جلد نکلنے کا امکان ہے، عمران کی جانب سے چکوال جلسے میں مسٹر ایکس اور مسٹر وائی کو کھلی دھمکیاں دینے اور اپنے فالورز کو فوج کے خلاف اکسانے کے بعد چوہدری پرویزالہٰی شدید پریشان ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اگر عمران نے اپنا لہجہ نہ بدلا تو پنجاب حکومت کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔ پرویز الہٰی کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ حمزہ شہباز کی چھٹی کروانے کے لیے نہ صرف فوج کے ایک مخصوص دھڑے نے بلکہ عدالتی بڑوں نے بھی ان کا ساتھ دیا تھا، لیکن عمران کی جانب سے فوج کے خلاف کھلی جنگ کے اعلان کے بعد اگر پنجاب حکومت گرانے کی کوشش ہوئی تو اسے بچانے کے لیے اب کوئی آگے نہیں آئیے گا۔
یاد رہے کہ چند ہفتوں سے عمران خان اپنے جلسوں میں کہتے پھر رہے ہیں کہ پنجاب حکومت گرانے کی کوششیں شروع ہو گئی ہیں اور اس حوالے سے ‘مسٹر ایکس’ اور ‘مسٹر وائے’ متحرک ہیں۔ عمران کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ اسٹیبلشمنٹ کے ایما پر ہو رہا ہے جو تحریکِ انصاف کی طاقت کو کم کرنا چاہتی ہے۔ دوسری جانب بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پرویز الہی سے نہ تو قاف لیگ والے خوش ہیں اور نہ ہی تحریک انصاف والے۔ ایک جانب پرویز الہی کے ساتھی قاف لیگ کے اراکین اسمبلی وزارتیں نہ ملنے کی وجہ سے نالاں ہیں تو دوسری جانب پہلی ٹی آئی کے اراکین بھی انتہائی ناراض ہیں۔ چند روز پہلے پنجاب ہاؤس اسلام آباد میں ہوئے تحریک انصاف کے پارلیمانی پارٹی اجلاس میں ناراض اراکین عمران کے سامنے پرویز الہیٰ کے خلاف پھٹ پڑے، اور شکایات کا انبار لگا دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی ارکان پنجاب میں لاوارث ہیں، جب کہ ق لیگ کے کونسلر سطح کے لوگ مشیر بنا لیے گئے ہیں۔ ارکان نے عمران خان سے گلہ کرتے ہوئے کہا کہ لگتا ہی نہیں کہ پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت ہے، سب خوار ہو گئے ہیں، سمجھ نہیں آتی کہ کس کے پاس جائیں۔ تاہم، عمران خان نے ان کو صبر کا مشورہ دیا اور کہا کہ پی ٹی آئی کو اپنا وجود منوانے کے۔لیے کام کرنا ہوگا۔ عمران نے کہا کہ ہمیں مجبوراً حکومت ق لیگ کو دینا پڑی، لیکن ہم نے اسلم اقبال کو سینئر وزیر لگا دیا ہے، وہ معاملات ٹھیک کر لیں گے۔
اس اجلاس سے پی ٹی آئی کے 25 ناراض ارکان اسمبلی غیر حاضر تھے۔ پنجاب میں پی ٹی آئی ارکان کی تعداد 176 ہے، جب کہ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں 150 ارکان ہی شریک ہوئے، جس پر عمران نے شدید ناراضی کا اظہار کیا۔ لیکن سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ 25 ارکان کی غیر حاضری نے پنجاب حکومت کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے کیونکہ اگر سپیکر یا وزیر اعلی کے لئے اعتماف کا ووٹ لیتے وقت بھی یہ لوگ ایوان سے غیر حاضر رہتے ہیں تو ان کا دھڑن تختہ ہو جائے گا۔ اسی طرح اگر قاف لیگ کے اپنے 10 اراکین اسمبلی میں سے اکثریت پرویز کا ساتھ چھوڑ کر واپس شجاعت کے پاس چلی جائے اور ن لیگ کی اتحادی بن جائے تو پرویز کی چھٹی ہو جائے گی۔ یاد رہے پرویز الہی کی جماعت سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی ان سے ناراض ہیں چونکہ ان سے وزارتوں کا وعدہ کیا گیا تھا۔ لیکن عمران نے پرویز الہی کو صاف انکار کرتے ہوئے کہا کہ دس سیٹوں کے عوض انکو وزارت اعلی مل چکی ہے اور اب انہیں مزید کوئی وزارت نہیں ملے گا۔
لیکن دوسری جانب تحریک انصاف پنجاب کے رہنما اور سابق صوبائی وزیر یاور بخاری نے کہا کہ پرویز الہی کی وزارت اعلیٰ اور ان کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں کیوں کہ انہیں جو اکثریت حاصل ہے اسے کم نہیں کیا جا سکتا۔ یاور بخاری کے بقول اسلام آباد میں چند دن پہلے پنجاب کے اراکین اسمبلی کا اجلاس ہوا ہے جس میں 160 سے زیادہ اراکین شریک ہوئے جن میں جنوبی پنجاب کے تمام اراکین بھی موجود تھے۔ان کے مطابق پی ٹی آئی کی تعداد تو 176 ہے مگر بعض اراکین ملک سے باہر ہیں یا ہنگامی مصروفیات کی وجہ سے شریک نہیں ہو سکے، اس لیے اسے غیر حاضر اراکین کا عدم اعتماد نہ سمجھا جائے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر گورنر پنجاب پرویز الہیٰ سے اعتماد کا ووٹ لینے کا کہیں گے بھی تو ہماری برتری برقرار رہے گی۔ ادھر مسلم لیگ ن کے رہنما عطا اللہ تارڑ نےکہا کہ پنجاب میں تبدیلی کی حکمت عملی بنائی ضرور جا رہی ہے لیکن اس پر فوری عمل درآمد کا فیصلہ نہیں کیا، ایوان میں وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الہیٰ کو 176 اور ن لیگ کو 168 اراکین کی حمایت حاصل ہے تو ہمیں صرف آٹھ ارکان درکار ہیں جن سے بات چیت ہو رہی ہے۔ان کے بقول اس کے علاوہ سپریم کورٹ میں جو نظر ثانی کی اپیل دائر کر رکھی ہے اسکے فیصلہ کا بھی ہمیں انتظار ہے۔ امید ہے سپریم کورٹ ہمارے موقف کو تسلیم کرے گی۔ اگر ایسا ہوا تو ویسے ہی حکومت تبدیل ہو جائے گی۔
مسلم لیگ ن کی رہنما عظمیٰ بخاری نے کہا کہ پنجاب میں حکومت کی تبدیلی تو طے ہے لیکن ہم مناسب وقت کا انتظار کر رہے ہیں۔ خاص طور پر یہ دیکھ رہے ہیں کہ جس طرح عمران خان فوج کے ادارے پرتنقیدی حملے کر رہے ہیں کیا پرویز الہیٰ بھی اس بیانیے کا ساتھ دیں گے اور کب تک دیں گے؟ انہوں نے کہا کہ ہماری تیاری مسلسل جاری ہے، اپوزیشن کا حق ہوتا ہے کہ وہ حکومت حاصل کرنے کے لیے تحریک عدم اعتماد سے متعلق اپنا حق استعمال کرے۔انکا کہنا تھا کہ اکتوبر کے پہلے ہفتے تک پنجاب میں حکومت کی تبدیلی کا عمل شروع ہو سکتا ہے لیکن اگر پی ٹی آئی نے فوری لانگ مارچ کی کال دے دی تو یہ عمل اس سے بھی پہلے شروع ہو سکتا ہے کیونکہ اگر صوبے میں پی ڈی ایم کی حکومت نہ ہوئی تو لانگ مارچ کو روکنا مشکل ہو جائے گا۔

Related Articles

Back to top button