مجھے معافی مانگنے پر سزا ملی تو عمران کو کیوں نہیں؟


ماضی میں سپریم کورٹ کے ہاتھوں توہین عدالت کے الزام پر غیر مشروط معافی مانگنے کے باوجود نااہل قرار دے دیے جانے والے نون لیگی رہنما طلال چوہدری نے کہا ہے کہ عمران خان کی جانب سے غیر مشروط معافی مانگنے سے انکار کے باوجود ان پر فرد جرم عائد نہ کر کے اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنا انصاف کا دوہرا معیار بے نقاب کر دیا ہے۔ طلال چوہدری نے کہا ہے کہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے عدالتی حکم نامہ جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ عمران نے غیر مشروط معافی مانگ لی ہے اور وہ اس پر مطمئن ہیں، جبکہ دوسری جانب عمران کے وکیل حامد خان ایڈووکیٹ نے واضح طور پر اعلان کردیا ہے کہ پی ٹی آئی چیئرمین نے غیر مشروط معافی نہیں مانگی، بلکہ مشروط معذرت کی ہے۔ انہوں نے کہا عدالت نے ایک مرتبہ پھر اپنا انصاف کا دوہرا معیار بے نقاب کیا ہے کیونکہ مجھے معافی مانگنے کے باوجود پانچ سال کے لیے نااہل کر دیا گیا تھا جبکہ عمران پر معافی نہ مانگنے کے باوجود فردِ جرم عائد نہیں کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کی طرح عدلیہ بھی عمران کے ساتھ اب تک لاڈلوں والا سلوک کر رہی ہے جس سے اس کی ساکھ کا دھڑن تختہ ہو رہا ہے۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے 2 اگست 2008 کو تب کے امورِ داخلہ کے وزیر مملکت طلال چوہدری کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دیتے ہوئے عدالت کے برخاست ہونے تک قید کی سزا سناتے ہوئے پانچ سال کے لیے کسی بھی عوامی عہدے کے لیے نااہل قرار دے دیا تھا۔سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے 63 ون جی کے تحت طلال کو توہین عدالت کا مرتکب پایا۔ جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ عدالت برخاست ہونے تک طلال چوہدری کو قید کی سزا دی جاتی ہے جبکہ ان پر ایک لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے۔طلال چوہدری کی سزا 11 بجے بینچ کے برخاست ہونے تک تھی اور تب تک وہ کمرہ عدالت میں ہی بیٹھے رہے۔

واضح رہے کہ طلال نے فیصل آباد میں حکمراں جماعت کے قائد نواز شریف کو ایک عوامی جلسے میں مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ میں فوجی آمر کے عبوری آئینی حکم نامے پر حلف لینے والے ‘بت’ بیٹھے ہوئے ہیں، ان کو باہر نکالا جائے ورنہ یہ اسی طرح ناانصافیاں کرتے رہیں گے۔اس تقریر پر تب کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے از خود نوٹس لیا تھا اور ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس سے پہلے ثاقب نثار کی زیر قیادت سپریم کورٹ نے سابق وفاقی وزیر برائے نجکاری دانیال عزیز اور سینیٹر نہال ہاشمی کو بھی توہین عدالت میں سزا سنا دی تھی۔ اگست 2022 میں طلال چودھری نے میاں ثاقب نثار پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ میرے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت سے قبل سابق چیف جسٹس نے مجھے بالواسطہ پیغام بھیجا کہ اگر میں مریم نواز اور نواز شریف کو چارج شیٹ کردوں تو مجھے نااہل نہیں کیا جائے گا۔ یاد رہے کہ ثاقب نثار نے طلال چوہدری کو توہین عدالت پر نااہل قرار دے دیا تھا حالانکہ انہوں نے عدالت سے غیر مشروط معافی بھی مانگ لی تھی۔

طلال چوہدری نے انتہائی حیران کن انکشافات کرتے ہوئے کہا کہ ثاقب نثار نے مجھے نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف بیان دینے کا کہا تھا۔جیو نیوز کے پروگرام آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ میں گفتگو کے دوران طلال نے کہا کہ میرے کیس میں ثاقب نثار نے سو موٹو نوٹس لیا تھا، انہوں نے اپنی مرضی کا بینچ بنایا، اسکے بعد میری اپیل خود اپنے پاس لگائی، اور اس بینچ کے سربراہ بھی بن گئے، طلال چوہدری نے کہا کہ تلخ سچ یہ ہے کہ ثاقب نثار نے مجھے بالواسطہ کہا کہ میں نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف بیان دوں کیونکہ جس وقت میں نے عدلیہ کے کردار کے حوالے سے تقریر کی تب نواز شریف اور مریم سٹیج پر بیٹھے ہوئے تھے۔ طلال نے کہا کہ میرے کیس کی سماعت سے ایک دن قبل ثاقب نثار نے پاکستان کی ایک بہت بڑی شخصیت کے ذریعے مجھے پیغام دیا کہ طلال کو بتا دینا کہ معافی تو بہت دور کی بات ہے، میں اس کی سزا بڑھا کراس میں اور بھی اضافہ کر دوں گا۔ طلال نے کہا کہ اگلے دن ثاقب نثار نے بطور چیف جسٹس میرے ساتھ کمرہ عدالت میں جو سلوک کیا وہ رپورٹرز سے پوچھ لیں۔ طلال نے بتایا کہ ثاقب نثار نے کمرہ عدالت میں آتے ہی مجھ پر چڑھائی شروع کر دی، پھر انہوں نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو کہا کہ اس شخص کی سزا بڑھانے کا کیا طریقہ ہے، جب انہیں جواب میں بتایا گیا کہ طلال نے تو سزا پرمعافی کی اپیل کی ہے، تو چیف جسٹس نے کہا کہ میرا دل کرتا ہے کہ میں اسکے خلاف دوبارہ سو موٹو لوں اور اسے جیل بھیجوں۔

لیگی رہنما نے کہا کہ ہم تب بھی اپنی صفائیاں دیتے رہے، میں آج پھر کہتا ہوں اللہ کی عدالت بھی ایک دن لگے گی، میں قسم اٹھا کر کہتا ہوں کہ میری نیت توہین عدالت کی نہیں تھی، انہوں نے کہا کہ میں ثاقب نثار پر الزام نہیں لگا رہا بلکہ افسوس کے ساتھ یہ حقائق بیان کر رہا ہوں۔ طلال چوہدری نے کہا کہ میری اپیل لگنے سے ایک رات پہلے ثاقب نثار نے مجھے جو پیغام بھجوایا اور اگلے دن عدالت میں جو کچھ کہا وہ سب ریکارڈ کا حصہ ہے اور اگر کسی کو کوئی شک ہے تو وہ عدالتی کارروائی کا ریکارڈچیک کر سکتا ہے۔ طلال چوہدری نے بتایا کہ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ میرا دل کرتا ہے کہ میں نواز شریف اور مریم نواز کو بھی نوٹس کروں، اس کے بعد میں خود چیف جسٹس کے سامنے بڑے مودبانہ انداز کے ساتھ پیش ہوا اور کہا کہ سر آپ کسی کو نوٹس نہ کریں، میں اپنی غلطی کو تسلیم کر رہا ہوں، میں ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں، میں ایک لا ء گریجوایٹ ہوں، اور عوام کا منتخب نمائندہ ہوں لہذا اگر مجھ سے غلطی ہوئی ہے تو درگزر کر دیں۔ تاہم انہوں نے اپنا غصہ نکالا اور میرا سیاسی کیریئر خراب کر دیا۔ طلال چودھری نے کہا کہ یہ حقائق بڑے تلخ ہیں، عدلیہ کو اگر اپنی دی گئی سزاؤں کو ریوو کرنا پڑے تو اسے ان تمام سزاؤں کو ریویو کرنا پڑے گا جو ثاقب نثار کے دور میں دی گئیں، وہ تاریخ میں عدلیہ کے نام پر ایک دھبہ ہے، میں نے ثاقب نثار کے حوالے سے جو بھی باتیں کیں اگر ان پر کوئی کمیشن بنتا ہے تو میں تمام حقائق سامنے رکھنے کو تیار ہوں۔

Related Articles

Back to top button