محسن داوڑ کو وفاقی کابینہ سے کس نے ڈراپ کروایا؟


وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے وفاقی کابینہ میں شامل کرنے کا حتمی فیصلہ ہو جانے کے باوجود آخری لمحات میں محسن داوڑ کو ڈراپ کرنے کے بعد یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ ایسا کس کے کہنے پر ہوا۔ اسلام آباد میں کچھ حلقے اس کا ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ کو قرار دے رہے ہیں جبکہ کچھ لوگ اس کی وجہ مولانا فضل الرحمن کی مخالفت کو قرار دے رہے ہیں۔
با خبر ذرائع کا کہنا ہے کہ حلف برداری کی تقریب سے ایک رات پہلے وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے صدر عارف علوی کو بھیجی گئی کابینہ کی حتمی لسٹ میں خیبر پختونخوا کے ضلع شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ کا نام شامل تھا لیکن حلف کے روز ڈراپ کر دیا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ پشتون تحفظ موومنٹ کے رکن قومی اسمبلی علی وزیر کے ساتھ بھی وزارت کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن پورا نہیں کیا گیا۔ یاد رہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں حزب اختلاف کے ساتھ تمام جماعتیں اور اتحادی مل گئے تھے اور تحریک صرف تین ووٹوں سے کامیاب ہوئی تھی۔ ایسی صورت حال میں شہباز حکومت کے لئے ایک ایک رکن قومی اسمبلی نہایت اہمیت کا حامل ہے، خصوصاً جب ایم کیو ایم کے ایک رکن اسمبلی اقبال محمد علی کا انتقال ہو گیا ہے اور بلوچستان نیشنل پارٹی بھی حکومت سے ناراض ہو گئی ہے۔
وزیرستان سے تعلق رکھنے والے دو اراکین محسن داوڑ اور علی وزیر بھی عدم اعتماد کی تحریک میں شامل تھے لیکن انھیں کوئی وزارت نہیں دی گئی ہے۔ اس بارے میں محسن داوڑ کا کہنا تھا کہ شہباز شریف نے حلف اٹھانے کے بعد ان سے کہا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ کابینہ کا جلد از جلد اعلان کر دیا جائے اور انھوں نے ’ہم سے بھی تجاویز مانگی تھیں اور کہا تھا کہ ان کی خواہش ہے کہ ہم لوگ بھی اس کابینہ میں شامل ہوں۔‘ انھوں نے بتایا کہ ‘اس کے بعد سوشل میڈیا پر کچھ سینئر صحافیوں کی جانب سے بھی ایسی ٹویٹ آئیں کہ اسٹیبلشمنٹ نہیں چاہتی کہ محسن داوڑ کو کابینہ میں شامل کیا جائے۔ اس کے بعد مسلم لیگ کے ایک سینئر رہنما نے مجھے بتایا کہ کچھ مسائل ہیں اور پی ڈی ایم میں شامل ایک جماعت بھی نہیں چاہتی کہ مجھے کابینہ میں شامل کیا جائے۔’ انھوں نے کہا کہ ’وہ سیاسی جماعت جو میری پی ڈی ایم میں شامل ہونے پر اعتراض کررہی تھی اسی جماعت کو میری کابینہ میں شمولیت پر بھی اعتراض ہے۔‘ محسن داوڑ نے اس جماعت کا نام تو نہیں لیا لیکن ان کا اشارہ مولانا فضل الرحمان کی جمعیت علماء اسلام کی جانب تھا جس کی وجہ سے انہوں نے پی ڈی ایم اتحاد سے بھی علیحدگی اختیار کی تھی۔
محسن داوڑ نے کہا کہ ’میں نے حکومتی کمیٹی کے اراکین سے کہا کہ وزارت میرا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ آپ سوچیں گے کیونکہ مجھے تو خود ہی کہا گیا تھا۔ ہم نے کوئی مطالبہ نہیں کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کا اپنے علاقے اور قوم کے بارے میں ایک موقف ہے اور تحریک عدم اعتماد کی حمایت پر ’ہمیں یقین دہانیاں کرائی گئی تھیں، اب وہ یقین دہانیاں کہیں نہیں ہیں۔’ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پی ڈی ایم میں محسن داوڑ کی شمولیت پر مولانا فضل الرحمان نے اس بنیاد پر اعتراض کیا تھا کہ پی ڈی ایم میں تمام سیاسی جماعتیں شامل ہیں جبکہ محسن داوڑ آزاد رکن کی حیثیت سے پی ڈی ایم کے اجلاس میں کیسے شریک ہو رہے ہیں۔ اس کے بعد محسن داوڑ کو پی ڈی ایم کے اجلاس میں شرکت کی دعوت نہیں دی گئی تھی۔
بعد میں محسن داوڑ اور ان کے ساتھیوں نے پشتون تحفظ موومنٹ سے علیحدگی اختیار کر کے اپنی سیاسی جماعت نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ قائم کرلی تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ بلاول بھٹو کی جانب سے وزارت خارجہ کا حلف نہ لینے کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ محسن داوڑ کی کابینہ میں شمولیت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ داوڑ کو کابینہ میں شامل کیا جارہا تھا لیکن آخری وقت میں انکی قومی اسمبلی میں کی جانے والی اسٹیبلشمنٹ مخالف تازہ تقریر آڑے آ گئی اور ان کا نام ڈراپ کر دیا گیا۔ جب محسن داوڑ سے پوچھا گیا کہ کہا انھیں تقریر کی وجہ سے کابینہ میں شامل نہیں کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ جب انھیں پاکستان سے متصل افغانستان کے علاقے میں بمباری کی رپورٹ ملی تو انھوں نے یہ مسئلہ ایوان میں اٹھانے کا فیصلہ کیا تھا۔ ان کے کچھ ساتھیوں نے کہا کہ فی الحال اس بارے میں خاموش رہو کیونکہ کابینہ کے سلسلے میں بات چیت جاری ہے۔ مگر میرا موقف تھا کہ میں اپنی قوم اور علاقے کے حقوق پر ’سودے بازی‘ نہیں کر سکتا۔ محسن داوڑ کا دعویٰ ہے کہ افغانستان میں وزیرستان کے بے گناہ لوگ مارے گئے ہیں جس پر وہ خاموش نہیں رہ سکتے تھے، کیونکہ اس موقع پر اگر وہ خاموش رہتے ہیں تو وہ ایسا ہے جیسے وہ اپنے لوگوں کے ’خون کا سودا‘ کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وزارت کی آفر تو تحریک انصاف کے دور میں بھی کی گئی تھی لیکن ان سے ایک اصولی اختلاف تھا اور اب بھی انکی خواہش نہیں تھی کہ وہ ہر حالت میں کابینہ کا حصہ بنیں۔ محسن داوڑ نے کہا کہ ان کی تقریر پر کچھ صحافیوں اور پی ٹی آئی کے سابق وزراء نے تنقید کی تھی لیکن جو موقف انھوں نے بیان کیا تھا کہ اپنے علاقے میں ظلم اور بربریت کے علاوہ افغان پالیسی اور شدت پسندی کے بارے میں پالیسی پر انھیں تحفظات ہیں، اس بارے میں ان کی جماعت اور ان کا ایک موقف ہے جس پر وہ ’سودے بازی نہیں کر سکتے‘۔

Related Articles

Back to top button