مرد مومن جنرل ضیاء الحق کے نام لیوا کہاں چلے گئے؟


پاکستان کے تیسرے آئین شکن ملٹری ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق اور اس کا گیارہ سالہ دور حکومتِ پاکستان کے لیے جتنا تباہ کُن ثابت ہوا اسکے اثرات آج کئی دہائیاں گزرنے کے بعد بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ نفرت اور فرقہ پرستی کے جو زہریلے بیج اس کے دور اقتدار میں بوئے گئے تھے وہ آج تن آور درخت بن چکے ہیں۔

ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے معروف لکھاری اور ناول نگار محمد حنیف بی بی سی کے لیے اپنی تازہ تحریر میں کہتے ہیں کہ 4 اور 5 جولائی کی درمیانی رات تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت الٹنے کا فیصلہ ہوچکا تھا۔ آپریشن کا نام بطور آپریشن فیئر پلے طے ہو چکا تھا۔ ضیا کی زیر قیادت فوجی آپریشن شروع ہونے سے چند لمحے پہلے فوج کے سربراہ اپنے دستِ راست اور راولپنڈی کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل فیض علی چشتی سے ملے۔ آپریشن کی جُزیات ایک بار پھر دہرائی گئیں اور جب چشتی مشن پر روانہ ہونے لگے تو مستقبل کے مردِ مومن نے چشتی کے کان میں کہا ’مرشد مروا نہ دینا‘۔

بقول محمد حنیف، یہ جنرل ضیاءالحق کا انداز دِلرُبائی تھا۔ وہ اپنے جونیئر کی انا کو ایسے سہلاتے کہ وہ اپنے آپ کو سینئر محسوس کرنے لگتا اور وہ اپنے سینئر کے قدموں سے ایسے لپٹتے کہ اسے اپنے اوپر خدا کا روپ اترتے ہوئے محسوس ہوتا۔ شاید جنرل ضیاء اندر سے ڈرپوک تھے ورنہ ڈرنے کی کوئی خاص بات نہیں تھی۔ جنرل فیض علی چشتی کی مونچھوں اور توپوں کے سامنے کون سی جمہوری حکومت ٹھہر سکتی تھی۔ جنرل چشتی نے نہ کسی کو مارا نہ کسی کو مروایا۔ 5 جولائی کی صبح سحر خیزوں کو یہ مژدہ مِلا کہ ایک اور وردی پوش مسیحا نازل ہوچکا ہے۔ 5 جولائی کی رات کو تو کوئی نہیں مرا لیکن آئندہ گیارہ برسوں میں بہت سے لوگ مارے گئے۔ پھانسی گھاٹوں پر، ٹھوڑی پھاٹک پر، بوہری بازار میں، اوجھڑی کیمپ میں، طالبِ علم، مزدور، سیاسی کارکن اور دیگر کئی جو گھر سے بازار صرف دودھ خریدنے آئے تھے۔ سینکڑوں مارے جانے والے ایسے بھی تھے جو پاک فوج کے عقوبت خانوں میں سالہا سال موت کی دعا مانگتے رہے۔ لیکن ملک کی جان تب چھوٹی جب مردِ مومن و مردِ حق ایک درجن سے زائد جرنیلوں سمیت ایک فضائی حاثے میں ہلاک ہوئے۔

حنیف کہتے ہیں کہ جنرل ضیاء کی عبرتناک موت کے کئی دہائیوں بعد بھی ہماری قوم میں بڑا تفرقہ ہے۔ ’بےغیرت گروپ‘ ’غیرت بریگیڈ‘ سے نبرد آزما ہے۔ بلوچ بندوقیں اٹھائے پہاڑوں پر جا بیٹھے ہیں۔ سندھی کہتے ہیں کہ ایک بار پھر زیادتی کرو تو ہم تمہیں بتاتے ہیں۔ ملک کے طول و عرض پر پھیلے سینکڑوں لشکر ’نصرمن اللہِ و الفتح قریب‘ کی بشارت دیتے ہیں۔ نسل در نسل امریکی مفادات کی دلاّلی کرنے والے اس بات پر گتھم گتھا ہیں کہ کمیشن کم کر دیا جائے یا پرانی تنخواہ پر کام کیا جائے۔ اور تو اور آئی ایس آئی چلانے والے اللہ کے پراسرار بندے بھی پارلیمنٹ کے دروازے بند کر کے کہتے ہیں کہ ’پتہ نہیں ہم کیا کرتے پھر رہے ہیں‘۔ کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا۔ لیکن ان گروہوں میں ایک بات پراتفاق ہے کہ جنرل ضیا اور ان کا گیارہ سالہ دور حکومتِ پاکستان کے لیے تباہ کُن ثابت ہوا۔ جو زہریلے بیج اس دور میں بوئے گئے تھے وہ تن آور درخت بن چکے ہیں۔

جنرل ضیاءالحق کا کوئی لے پالک سیاستدان، فوج کا کوئی ریٹائرڈ یا حاضرسروس جنرل شاہ فیصل مسجد کے صحن میں اس کے مزار پر سینہ ٹھونک کر نہیں کہتا کہ وہ ضیاءالحق کے مشن کی تکمیل کرےگا۔ ضیاء دور کے درس پڑھ کر بڑے ہونے والے ٹی وی اینکرز بھی یہ نہیں کہتے پائےجاتے کہ کاش اگر جنرل ضیاء حیات ہوتےتو ہم یوں راندہءِ درگاہ نہ ہوتے۔

جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سب کے سب مرحوم کے مشن کی تکمیل کے لیے جان ہتھیلی پر رکھے رواں دواں ہیں۔ جنرل ضیاء جب تک حیات رہے، ہمسایہ ملک افغانستان کے بارے میں ان کی ایک ہی پالیسی تھی کہ افغانستان کی ہانڈی ابلتی رہے، ابل کر باہر نہ گرے، لیکن یہ ضروری ہے کہ ہانڈی ابلتی رہے۔ افغانستان کی ہانڈی ابالتے ابالتے انہیں اپنے گھر میں لگنے والی آگ کی خبر نہ رہی۔ ان کے بعد آنے والوں نے اس ہانڈی کو ابالنے کے لیے اتنا ایندھن جھونکا کہ پاکستان میں لاکھوں چولہے ٹھنڈے ہوگئے۔

محمد حنیف کے بقول پارلیمنٹ کے بند دروازوں کے پیچھے ہمارے سیاسی اور فوجی سپہ سالاروں میں جو مکالمہ ہوا اس میں ہر ایک کی طبع کے مطابق گیڈر بھبھکیاں بھی ہیں اور سینہ کوبی کا سامان بھی ہے۔ اگر کسی بات کا ذکر نہیں ہے تو یہ نہیں ہے کہ تیس سال پہلے جو ہم نے اپنے ہمسائے میں آگ لگا کر ہاتھ تاپنے کی قومی سلامتی پالیسی بنائی تھی اس پر بھی ایک نظر ڈالیں یا نہیں۔ حنیف سوال کرتے ہیں کہ کیا کبھی کسی فوجی جنرل نے اس بات پرغور کیا ہے کہ ہمارے افغان بھائی کمیونسٹوں سے لے کر طالبان تک ہم سے اتنے متنفر کیوں ہیں؟

Related Articles

Back to top button