مریم نواز کے ہاتھ میں سٹیل کا گلاس،اقتدارکا نیا ٹوٹکایا خوبصورتی کاراز؟

 حال ہی میں مریم نواز شریف کی ایک تصویر وائرل ہوئی ہے جس میں وہ رانا ثنا اللہ کے پہلو میں بیٹھی ہیں اور ان کے ہاتھ میں سٹیل کا ایک گلاس ہے۔ دراصل مریم بی بی نے جب سے عملی سیاست میں باقاعدہ قدم رکھا ہے اور تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کو للکارا ہے، یہ سٹیل کا گلاس ان کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور ایک معمہ بنا ہوا ہے۔

مریم یہ گلاس کیوں رکھتی ہیں؟ کیا اس میں ان کی خوبصورتی کو قائم رکھنے کے لئے بوٹینک واٹر Botanic Water ہے یا سیاست میں  کامیابی کے لئے عمران خان کی روحانی پیشوا بشریٰ بی بی کے موٴکلوں کا توڑ، یہ شریف فیملی کو نحوست سے دور رکھنے کا کوئی ٹوٹکا ہے یا یہ کسی عامل کی کرامات؟ جس نے مریم بی بی کو یہ باور کروا دیا ہے کہ اگر عمران خان ”پنکی پیرنی“ کی وجہ سے اقتدار حاصل کر سکتا ہے تو کیا مریم بی بی اقتدار کے لئے ایک گلاس ہاتھ میں نہیں رکھ سکتیں؟

بہرحال گلاس میں کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وہ کشمیری ہونے کی وجہ سے لَسی پینے کی شوقین ہیں توووہ گلاس میں لَسی پیتی ہیں لیکن مریم کے قریبی لوگ جانتے ہیں کہ وہ بھی  جدیدیت کی قائل ہیں اور چائے نہیں کافی شوق سے پیتی ہیں، یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اس میں دیسی طریقے سے تیار کی گئی ”سمودی“ پیتی ہوں؟بظاہر توسٹیل کا گلاس استعمال کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں اور کہتے ہیں کہ سٹیل کے گلاس میں پانی پینے سے کئی بیماریاں بھی دور رہتی ہیں لیکن مریم بی بی کا گلاس مدعا اس وقت بنا جب وہ خاص موقعوں پر اسے تھامے رکھنے لگیں۔ اور لوگوں نے اسے مریم بی بی کی توہم پرستی قرار دینا شروع کر دیا۔ ویسے بھی اگر وہ گلاس ہاتھ میں تھامے کوئی مخصوص قسم کا وظیفہ پڑھ رہی ہوتیں تو بے نظیر بھٹو یا ان کی تقلید میں عمران خان کی طرح ہاتھ میں تسبیح رکھتیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کا یہ گلاس اہم ملاقاتوں، جلسوں اور میٹنگز  کے علاوہ اکثر میڈیا سے گفتگو کے دوران بھی ان کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور کیمرے کی نظر سے چھپ نہیں  سکتا۔مریم کی سٹائل سٹیٹمنٹ کو دیکھتے ہوئے اس امکان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا کہ انھیں اپنی خوبصورتی کا زعم ہے،اور یہ وہم  کہ انھیں نظر لگ جاتی ہے تو کیا یہ نظر کا توڑ ہے؟ویسے پاکستانی سیاست میں توہم پرستی یا پیری فقیری کا سلسلہ نیا نہیں، اقتدار ہاتھ آ جائے تو خوش قسمتی اور ہاتھ سے نکل جائے تو بد قسمتی۔ ہر ایک کسی نہ کسی وہم  میں مبتلا ہے۔ تیرہ کا ہندسہ منحوس، بلی کا راستہ کاٹنا منحوس، سیاہ لباس پہننا منحوس، نحوست کے اس ہیر پھیر میں کسی کو کبھی کوئی نقصان پہنچا ہے یا نہیں؟ اس سے قطع نظر، کاہنوں یا عاملوں کی خوب چاندی ہوئی ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، کون ہے جس نے روحانی کمالات اور عملیات کے ذریعے اپنے مخالفوں کو زیر کرنے اور اقتدار کی کرسی تک پہنچنے کی کوشش نہیں کی؟

کیا پاکستان میں امور مملکت واقعی جادو ٹونے، توہم پرستی یا طوطا فال کے ذریعے چلائے جاتے ہیں؟ کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے تیسرے گورنر جنرل ملک غلام محمد ایک روحانی بزرگ کے عقیدت مند تھے۔ صدر جنرل ایوب خان علم جفر پر اعتقاد رکھتے تھے اور پیر صاحب دیول شریف پر اندھا بھروسہ کرتے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے روحانی پیشوا جمن فقیر تھے۔ بے نظیر بھٹو بنگلہ دیش کے ایک روحانی بزرگ مجیب الرحمان چشتی اور اپنے آبائی علاقے کے ایک عامل نصیر ناریجو  کی دور بینی پر یقین رکھتی تھیں۔ وہ اجمیر شریف، لال شہباز قلندر اور علی ہجویری گنج بخش کے مزاروں پر بھی باقاعدگی سے حاضری دیتیں۔ نواز شریف مانسہرہ کے پیر رحمت اللہ دھنکہ شریف المعروف دیوانہ بابا کے اسیر تھے۔ آصف علی زرداری گوجرانوالہ کے پیر محمد اعجاز کی روحانیت پر یقین رکھتے تھے، اس حوالے سے فقیر ممتاز علی منگی کا نام بھی لیا جاتا ہے۔

عمران خان پاک پتن کی بشریٰ بی بی عرف ”پنکی پیرنی“ کی کرامات کے ایسے اسیر ہوئے کہ بشریٰ بی بی کو طلاق دلوا کر ان سےنکاح ہی کر بیٹھے حتیٰ کہ ان کے نکاح خواں کے مطابق اتنے جلد باز واقع ہوئے کہ بشریٰ بی بی کی عدت بھی مکمل نہ ہونے دی۔   چودھری برادران شفاعت حسین اور پرویز الہیٰ کے ”با با جی“ سے ان کی نیاز مندی بھی کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ مریم بی بی کا گلاس انھیں اقتدار کی کرسی پر کب براجمان کرتا ہے اور کیا اس کی کرامات شریف فیملی اور مسلم لیگ ن کو توڑ پھوڑ سے بچا پائیں گی؟

Related Articles

Back to top button