مسلم لیگ (ن) کا جارحانہ حکمت عملی اپنانے کا فیصلہ


آصف علی زرداری کی دانش کے طفیل نئی سیاسی زندگی حاصل کرنے والی مسلم لیگ نون کی قیادت نے تحریک انصاف کے خلاف جارحانہ حکمت عملی اپنانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ اس کی وفاق اور پنجاب کی حکومتوں کو دوبارہ تر نوالہ گردانتے ہوئے نگلنے کی کوشش نہ کی جائے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ کی قیادت کو اب اس حقیقت کا ادراک ہو چکا ہے کہ عمران خان کی مسلسل سیاسی جارحیت کا جواب اب شرافت سے نہیں بلکہ جارحیت سے ہی دینا پڑے گا۔ ویسے بھی ملک جس شدید ترین معاشی بحران کا شکار ہے اس سے نکلنے کے لیے سیاسی استحکام لانا اشد ضروری ہو چکا ہے۔ وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ خان کا کہنا ہے کہ وزارت اعلیٰ پنجاب کے الیکشن میں دوبارہ شکست کے باوجود عمران خان کی جانب سے احتجاج کی کال مزید انتشار پیدا کرنے کی کوشش ہے جو اس سیاسی عدم استحکام میں اضافے کا سبب بنے گی جس سے ملک نکلنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ ڈوبتی ہوئی معیشت کو بچایا جا سکے۔ چناچہ مسلم لیگ نون کی قیادت نے حمزہ شہباز کے الیکشن سے پہلے ہی یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ اب شرافت کی سیاست چھوڑ کر جارحانہ حکمت عملی اپنائی جائے گی۔ مسلم لیگ ن نے 22 جولائی کو پنجاب اسمبلی میں تقریباً وہی جارحانہ حکمت عملی اپنائی جو پی ٹی آئی نے 9 اپریل کو قومی اسمبلی میں اپنائی تھی، جس طرح عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو تب کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے مسترد کر دیا تھا، اسی طرح پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری نے بھی پرویز الٰہی کے حق میں پڑنے والے دس ووٹوں کو مسترد کردیا۔

مسلم لیگی ذرائع کا کہنا ہے کہ 17 جولائی کے ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کے ہاتھوں شکست کے بعد مسلم لیگ (ن) نے فیصلہ کیا ہے کہ اب عمران خان کی بے ہودہ اور انتقامی سیاست کا جواب شرافت اور اخلاقیات سے دینا ممکن نہیں، چنانچہ عمران خان کی بڑھتی ہوئی سیاسی دشنام طرازیوں کا راستہ روکنے کے لیے اب ‘جیسا منہ ویسا تھپڑ’ کی پالیسی اپنانا ہو گی۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ عمران خان کی جانب سے ضمنی انتخاب کی مہم میں اپنے سیاسی حریفوں کو چور، ڈاکو، چیری بلاسم، ڈیزل، ککڑی اور بیماری جیسے القابات دینے والے عمران خان کو بھی اب عمرانڈو خان اور عمران گوگی جیسے القاب سے پکارا جائے۔

مریم نواز پہلے ہی عمران خان پر جارحانہ حملے کرتے ہوئے انہیں فتنہ خان کا خطاب دے چکی ہیں۔ اب مسلم لیگ نون کی اب تک کی مفاہمانہ پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی کا اشارہ دیتے ہوئے مریم نے اپنی تازہ ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ ‘مسلم لیگ (ن) اپنے ساتھ کیے گے سلوک کو نہیں بھولی، اب کھیل کے اصول سب کے لیے یکساں ہوں گے، ورنہ مسلم لیگ (ن) اسے کھیلنا اچھی طرح جانتی ہے۔ مبصرین کے مطابق یہ ایک اشارہ تھا کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت آئندہ سال اگست میں عام انتخابات تک اپنی حکومت کی مدت مکمل کرنے کے لیے ڈٹ گئی ہے اور اب جارحیت کا جواب جارحیت سے ہی دیا جائے گا۔

نون لیگی ذرائع کا کہنا ہے کہ 22 جولائی کو اگر حمزہ شہباز اپنی حکومت بچانے میں کامیاب نہ ہوتے تو یہ نواز لیگ کے لیے 17 جولائی سے بھی بڑا سانحہ ہوتا کیوں کہ پنجاب کھونے کا مطلب یہ تھا کہ وفاقی حکومت بھی بالآخر ختم ہو جاتی، لیگی ذرائع کا کہنا ہے کہ ہم عمران خان کی حکومت کا اکٹھا کیا ہوا بوجھ اٹھایا اور اس کا ڈالا ہوا گند صاف کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اسی لیے سخت معاشی فیصلے بھی کیے جنکی قیمت نواز لیگ کو ضمنی انتخابات میں ادا کرنا پڑی۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے میں اگر اسٹیبلشمنٹ اپنی عمرانی پیشکش کو کنٹرول نہیں کرتی اور مزید سیاسی انتشار اور فساد ڈالنے کی کھلی چھٹی دیے رکھتی ہے تو پھر اس جارحیت کا منہ توڑ جواب دینا نون لیگ کا فرض بنتا ہے۔ لیگی قیادت یہ شکوہ بھی کرتی ہے کہ طاقتور فوجی اسٹیبلشمنٹ نے پچھلے چار سال میں ملکی معیشت تباہ کرنے اور سیاسی انتشار پھیلانے والے عمران خان کی تو مکمل پشت پناہی کی لیکن اب جب موجودہ حکومت پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کی کوششوں میں مصروف ہے تو فوجی اسٹیبلشمنٹ اس کے ساتھ کھڑی ہونے کی بجائے اب بھی عمران کی پشت پناہی کرتی دکھائی دیتی ہے۔

مسلم لیگ کی قیادت کو یہ تشویش بھی لاحق ہے کہ عدالتیں ہوں، فوج ہو یا الیکشن کمیشن آف پاکستان، عمران کی جانب سے الزامات اور گالی گلوچ کا کوئی نوٹس نہیں لیا جاتا۔ عدالتیں بھی فیصلے دینے سے پہلے عمران کی رائے جانتی ہیں اور پھر ایک ہی نوعیت کے کیسوں میں ایک فیصلہ عمران کے حق میں آتا ہے اور دوسرا حکومت کے خلاف۔ اس کے علاوہ الیکشن کمیشن بھی تحریک انصاف کے فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ محفوظ کرنے کے بعد لمبی تان کر سو چکا ہے۔ اس صورت حال میں لیگی قیادت نے فیصلہ کیا ہے کہ اب عمران کے علاوہ اداروں کے خلاف بھی جارحانہ رویہ اپنایا جائے خصاصا اس عدلیہ کے خلاف جو انصاف کا دوسرا معیار اپنا کر چل رہی ہے۔

Related Articles

Back to top button