نئے آرمی چیف کے تقرر کا فوری اعلان ضروری کیوں ہو گیا؟


سینئر صحافی اور تجزیہ کار حامد میر نے کہا ہے کہ عمران خان حالات کو وہاں لے جا رہے ہیں جہاں پاکستان کا بطور ریاست بڑا نقصان ہو سکتا ہے، چنانچہ اب جبکہ عمران خفیہ اداروں میں موجود اپنے حامی سرکش عناصر کی مدد سے جلائو گھیرائو سے باز نہیں آ رہے تو فوری طور پر نئے آرمی چیف کی تقرری کر دینی چاہئے۔ حکومت نے جو کام نومبر کے آخر میں کرنا ہے، اسے نومبر کے وسط میں کر دے تا کہ سارا ہنگامہ ختم ہو جائے۔ لیکن اس کام کا کریڈٹ بھی خان صاحب کو ہی جائے گا کیونکہ کچھ سرکش عناصر کے اپنے ساتھ ملی بھگت کی خبر بھی تو انہوں نے خود ہی بریک کی ہے۔

روزنامہ جنگ کے لئے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں حامد میر کہتے ہیں کہ اگر کسی کو کوئی شک تھا تو عمران خان نے وہ شک بھی دور کر دیا ہے۔ سی این این کی بیکی اینڈرسن نے عمران خان سے پوچھا کہ آپ خود پر قاتلانہ حملے کا الزام تین افراد پر لگا رہے ہیں، ان تینوں کے خلاف الزام کا کوئی ثبوت آپ کے پاس ہے؟ لیکن خان صاحب نے ثبوت دینے کے بجائے الزام کا پس منظر بیان کرنا شروع کر دیا۔ اسی انٹرویو میں امریکی صحافی نے عمران خان سے پوچھا کہ آپ کو قاتلانہ حملے کی پیشگی اطلاع کیسے مل گئی تھی؟ خان صاحب نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر کہا کہ مجھے یہ اطلاع خفیہ اداروں کے اندر سے ملی اور یہ وہ لوگ ہیں جو اس وقت ملک کے حالات سے خوش نہیں ہیں۔

خان صاحب نے سی این این پر جو کہا اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاستی اداروں کے اندر موجود کچھ لوگ اُن کی مدد کر رہے ہیں اور یہ لڑائی قبل از وقت انتخابات کی نہیں بلکہ اپنی مرضی کا آرمی چیف لگوانے کی ہے۔ ملک کا ایک سابق وزیراعظم ببانگِ دُہل امریکی ٹی وی چینل کو بتا رہا ہے کہ پاکستانی خفیہ اداروں کے کچھ سرکش عناصر اُس کی پشت پر کھڑے ہیں۔ اگریہ بات نواز شریف یاآصف زرداری نے کہی ہوتی تو اب تک ایک بہت بڑا طوفان آ چکا ہوتا۔

حامد میر کہتے ہیں کہ عمران خان نے اپنے کچھ ناقدین کے اس مؤقف کی خود ہی تائید کر دی ہے کہ ان کی سیاست کسی انقلاب یا حقیقی آزادی کے لئے نہیں ہے بلکہ وہ خفیہ اداروں کے اندر موجود کچھ سُپر پیٹریاٹ لیکن سرکش عناصر کے سہولت کار ہیں۔ یہ عناصر دراصل ایک مخصوص طرز فکر کے نمائندہ ہیں۔ سال 2011 میں پہلی بار ایک خفیہ ادارے کے سربراہ نے مجھے کہا کہ ہمیں موروثی سیاست کرنے والی جماعتوں سے جان چھڑانی ہے اور پاکستان میں صدارتی نظام لانا ہے۔ جب میں نے ان صاحب سے کہا کہ جو آپ کرنا چاہتے ہیں وہ آپ کا مینڈیٹ نہیں تو انہوں نے میرے ساتھ بحث شروع کر دی۔ بحث کا اختتام انتہائی ناخوشگوار ماحول میں ہوا جس کا خمیازہ میں نے کافی عرصے تک بھگتا۔ پچھلے سال ہم نے صدارتی نظام کی باتیں دوبارہ سننا شروع کیں۔ باخبر حلقوں میں ایک 30 سالہ منصوبہ زیر بحث تھا جس کے تحت اپریل 2022ء میں نئے آرمی چیف کی تقرری کے کچھ عرصہ بعد قبل از وقت انتخابات کرائے جانے تھے۔ ان انتخابات میں عمران خان کو دو تہائی اکثریت دلوانا مقصود تھی اور پھر نئی قومی اسمبلی سے آئین میں ترامیم کرا کے پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام میں تبدیل کرنا تھا۔ پیپلزپارٹی سے کہا گیا کہ آپ گھبرائیں نہیں عمران خان صرف ایک ٹرم اور لیں گے، اور اگلی ٹرم آپ کو ملے گی۔ لیکن پیپلزپارٹی کو اٹھارہویں ترمیم خطرے میں نظر آئی تو اسکی قیادت نے مسلم لیگ (ن) کو ساری کہانی بتا دی اور یوں عدم اعتماد کا کھیل شروع ہوا۔ عدم اعتماد کے کھیل میں عمران کو صدر عارف علوی کی مکمل حمایت حاصل تھی اور اب تو خان صاحب نے سی این این کے ذریعہ ساری دنیا کو بتا دیا ہے کہ اُنہیں خفیہ اداروں کے اندر موجود عناصر کی حمایت حاصل تھی۔ عمران خفیہ اداروں کے اندر موجود جن عناصر کی حمایت کا دعویٰ کر رہے ہیں وہ خان صاحب کو نہیں بلکہ اپنے آپ کو قوم کا نجات دہندہ سمجھتے ہیں اور نجات دہندہ بننے کے لئے وہ کسی نہ کسی طرح پاکستان میں صدارتی نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ عمران کو غور کرنا چاہئے کہ جن عناصر نے اُنہیں پہلے ہی بتا دیا کہ آپ پر وزیرآباد میں قاتلانہ حملہ ہو گا اور حملہ آور کو ایک مذہبی جنونی قرار دیا جائے گا، اُنہوں نے آپ کو وزیرآباد میں حفاظتی انتظامات سخت کرنے کے لئے کیوں نہ کہا؟ کیا انہوں نے یہ بھی بتا دیا تھا کہ مذہبی جنونی صرف آپ کی ٹانگوں پر فائرنگ کرے گا؟ عمران خان نے حملے کا الزام وزیراعظم، وزیر داخلہ اور ایک فوجی افسر پر لگایا لیکن پنجاب میں اپنی حکومت ہونے کے باوجود نامزد ملزمان پر ایف آئی آر نہ کرا سکے۔

حامد میر کے بقول یہ کہنا غلط ہے کہ بغیر ثبوت کے کسی کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں ہو سکتی۔ 1974 میں ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم تھے اور پنجاب میں اُن کی حکومت تھی۔ لاہور میں پیپلز پارٹی کے ایک ناراض ایم این اے احمد رضا قصوری کے والد محمد احمد خان قصوری قتل ہو گئے۔ اُس دن بھٹو صاحب ملتان میں تھے اور آئی جی پنجاب رائو رشید بھی اُن کے ساتھ ملتان میں تھے۔ رات کو رائو رشید کو پتہ چلا کہ احمد رضا قصوری کے والد قتل ہو گئے ہیں اور وہ ایف آئی درج نہیں کرا رہے کیونکہ اُن کا خیال ہے کہ اُن کے والد کو حکومت نے قتل کرایا ہے اور انہیں انصاف نہیں ملے گا۔ رائو رشید نے لاہور پولیس سے کہا کہ احمد رضا قصوری سے کہیں وہ جس پر ایف آئی آر کرانا چاہتا ہے کرا دے ،ہم انویسٹی گیشن میں دیکھ لیں گے کہ اُن کا دعویٰ صحیح ہے یا غلط۔ قصوری نے ایف آئی آر میں وزیراعظم بھٹو کو نامزد کردیا۔ اگلے دن رائو صاحب نے وزیراعظم کو بتا دیا لیکن بھٹو نے کوئی اعتراض نہ کیا کیونکہ وہ خود بھی ایک وکیل تھے۔ لیکن بعد میں جنرل ضیاء الحق نے اس مقدمے کو بھٹو کے عدالتی قتل کیلئے کیسے استعمال کیا وہ رائو رشید صاحب کے طویل انٹرویو ’’جو میں نے دیکھا‘‘ میں موجود ہے۔ یاد رہے کہ اسی مقدمہ قتل میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی تھی جسے تاریخ نے جوڈیشل مرڈر قرار دیا۔

حامد میر کے بقول جس طرح ایف آئی آر میں ملزم نامزد کرنا عمران خان کا حق ہے اسی طرح ریاست کا بھی یہ حق ہے کہ وہ خفیہ اداروں میں اُن سرکش عناصر کو ڈھونڈے جو عمران کی مدد کر رہے ہیں۔ خفیہ اداروں میں سرکش عناصر کی موجودگی ناقابل قبول ہے۔ زیادہ پرانی بات نہیں جب شیخ رشید وزیر داخلہ تھے اور ہر دوسرے دن سندھ میں گورنر راج لگانے کی دھمکیاں دیا کرتے تھے۔ آج رانا ثناء اللہ وزیر داخلہ ہیں۔ وہ بھی پنجاب اور خیبر پختونخوا میں گورنر راج کی باتیں کر رہے ہیں حالانکہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد گورنر راج کا نفاذ کافی مشکل ہے۔ آئین کے تحت جس صوبے میں گورنر راج لگانا ہو یا تو اُس صوبے کی اسمبلی گورنر راج کے حق میں قرارداد پاس کرے یا پھر گورنر راج کے نفاذ کے بعد قومی اسمبلی اور سینیٹ اپنے مشترکہ اجلاس میں گورنر راج کی تائید کریں۔

اٹھارہویں ترمیم کے بعد 2013ء میں پیپلز پارٹی نے بلوچستان میں اپنے ہی وزیراعلیٰ اسلم رئیسانی کو گورنر راج کے ذریعے ہٹا دیا تھا اور سپریم کورٹ نے اس کی تائید کر دی تھی۔ تب آصف علی زرداری صدر تھے۔آج عارف علوی صدر ہیں جو عمران خان کے دست راست ہیں۔ آئین کے تحت وزیراعظم کسی صوبے میں گورنر راج کی سمری صدر کو بھیج دے تو صدر صاحب زیادہ عرصہ اُس سمری کو نہیں روک سکتے۔ ویسے بھی عمران خان ملک کے حالات کو وہاں لے جا رہے ہیں جہاں عدلیہ بھی حکومت کے کسی ایسے فیصلے کی توثیق پر مجبور ہو سکتی ہے۔

Related Articles

Back to top button