نرالے عدالتی فیصلے کے بعد عدلیہ کا امتحان شروع اور ہمارا ختم


سینئر قانون دان عرفان قادر نے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کے خلاف سپریم کورٹ کے تین رکنی بندیال بنچ کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ آج کے نرالے عدالتی فیصلے کے بعد ہمارا امتحان ختم ہو چکا ہے جبکہ سپریم کورٹ کا امتحان شروع ہو چکا ہے کیونکہ اس فیصلے نے عدلیہ کو بے نقاب کر دیا ہے۔

عرفان قادر کا کہنا ہے کہ فل کورٹ نہ بنانے کے فیصلے سے ہی یہ حقیقت آشکار ہو چکی تھی کہ سپریم کورٹ کیا فیصلہ دینے جا رہی ہے حالانکہ یہ سارے ملک کا معاملہ تھا اور انصاف کا تقاضابھی یہی تھا کہ فل کورٹ بنا دی جاتی تاکہ عدلیہ متنازعہ نہ ہوتی، لیکن ججوں کو یہ خوف تھا کہ فل کورٹ انصاف پر مبنی فیصلہ دے گی اس لیے سالہا سال سے خاص طرح کے فیصلے دینے والے مخصوص ججوں کے بینچ نے ایک مرتبہ پھر اپنی مرضی کا فیصلہ دے دیا۔ عرفان قادر کا کہنا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے کیس میں جب دس جج بیٹھے تو فیصلہ ان لوگوں کے خلاف آگیا جو انہیں عہدے سے ہٹانا چاہتے تھے، اس لیے چیف جسٹس نے فل کورٹ بنانے کا رسک نہیں لیا اور پرویز الٰہی کو عدالتی حکم نامے کے ذریعے حمزہ شہباز کی جگہ وزیر اعلیٰ بنا دیا۔

عرفان قادر کا کہنا تھا کہ اس عدالتی فیصلے پر میری اپنی رائے یہ ہے کہ ماضی میں بھی متنازعہ قرار دیے جانے والے ججوں نے ایک مرتبہ پھر ایک اور متنازعہ فیصلہ دے دیا لیکن درحقیقت یہ معاملہ عدلیہ کا نہیں بلکہ ملک کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر پارلیمنٹ اور سیاستدانوں نے اس عدم استحکام کو نہ روکا تو ملک کا بہت نقصان ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کے اس فیصلے سے عجیب و غریب صورتحال پیدا ہو جائے گی۔ سپریم کورٹ کے اپنے فیصلوں میں مستقل مزاجی نہیں رہی۔ بڑا ظلم یہ ہے کہ عدلیہ ایک ہی معاملے میں دو مختلف فیصلے دے رہی ہے اور اسے اپنی ساکھ کا بھی کوئی خیال نہیں؟ انہوں نے کہا کہ میں اس فیصلے پر صرف اتنا ہی تبصرہ کروں گا کہ ہمارا امتحان ختم ہو چکا ہے اور اب عدلیہ کا امتحان شروع ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالتی فیصلے کے غلط یا صحیح ہونے کا معاملہ بھی میں تاریخ پر چھوڑتا ہوں۔

عرفان قادر نے کہا کہ ہم سپریم کورٹ کی جانب سے فل کورٹ نہ بنانے کے فیصلے کو چیلنج کریں گے۔ اگر ہماری نظر ثانی اپیل مسترد ہوئی تو پھر ہماری درخواست فل کورٹ کے سامنے جائے گی، اور مجھے امید ہے کہ وہاں ہماری درخواست مسترد نہیں ہوگی۔ عرفان قادر نے کہا کہ میں بھی جج رہا ہوں اور ایک جج پر لازم ہے کہ جب کوئی درخواست گزار کسی جج پر عدم اعتماد کا اظہار کر دے تو وہ فوری طور پر بینچ سے علیحدہ ہو جائے، دنیا بھر میں انصاف کا یہی اصول رائج ہے چونکہ جج منصف ہوتا ہے اور اگر اس کی غیر جانبداری مشکوک ہوجائے تو اس کا فیصلہ تسلیم نہیں کیا جاتا۔

Related Articles

Back to top button