نواز شریف، آصف زرداری اور عمران خان کے چھپے راز


اگر یہ کہا جائے کہ پاکستانی سیاست دان بھی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں سے کم نہیں تو غلط نہ ہو گا کیونکہ ان پلیئرز میں بھی وہی نمبر ون ہے جو پاور پلے کا گُر جانتا ہے۔ اب وہ شاطرانہ چالوں کے ماہر آصف زرداری ہوں یا لندن میں بیٹھ کر حکومتی ڈوریاں ہلانے والے میاں نواز شریف، پھرتیاں دکھانے والے شہباز شریف ہوں یا یو ٹرن کنگ عمران خان، کس کی کیسے خبر لینی ہے، کس طرح پول کھولنے ہیں اور کس کے کانوں سے کیسے دھواں نکالنا ہے، یہ پاکستانی سیاست کے پلیئرز سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ لیکن کیا آپ کو نہیں لگتا کہ اکھاڑ بچھاڑ کی اس سیاست میں ان کا اصلی روپ پسِ پردہ چلا گیا ہے؟ ورنہ لوگ تو یہ بھی بڑے دلچسپ تھے۔ لہٰذا آج ہم ان نامی گرامی سیاستدانوں کی زندگی کے کچھ ایسے رازوں سے پردہ اٹھاتے ہیں جو شاید وہ خود بھی بھول چکے ہیں۔ ہم آغاز کرتے ہیں نواز شریف سے جو صرف اچھے کھابوں کے ہی نہیں بلکہ اچھی خوشامد بھی پسند کرتے ہیں۔ لندن جا کر میاں صاحب میں تھوڑی بہت تبدیلی تو آئی ہے لیکن خوشامدیوں کے ٹولے میں گھِرے رہنا انھیں اب بھی بہت اچھا لگتا ہے۔ اسی طرح وزیراعظم شہباز شریف بھی جیسے بظاہر نظر آتے ہیں ویسے ہیں نہیں، ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ خود پسندی کی علت میں مبتلا ہیں۔ انھیں یہ زعم ہے کہ خواتین فوراً انکی شخصیت سے متاثر ہو جاتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ آج تک جتنی بھی خواتین ان کی زندگی میں آئیں، ان میں نصرت شہباز کے علاوہ باقی سب ان کے پیسے کے چکر میں رہی ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ شریف فیملی کے باقی مردوں کی طرح شہباز شریف بھی سُر میں گاتے ہیں، خصوصاً ایسی محفل میں جہاں کہ خواتین بھی ہوں، اگر محفل میں چند خوبصورت خواتین بھی موجود ہوں تو شہباز گانے کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ لوگ انکے گانے کی تعریف کریں۔ شہباز نا صرف خود اپنی صلاحیتوں کے معترف ہیں بلکہ اپنی دولت کے زعم میں بھی مبتلا ہیں۔

گیارہ برس تک جیل کاٹنے کے بعد مرد حر کا خطاب پانے والے آصف زرداری، سیاسی بازیاں جیتنے کا فن تو جانتے ہی ہیں، لیکن دلوں کو جیتنے کا فن بھی انھیں خوب آتا ہے۔ اسی لیے انھیں یاروں کا یار بھی کہا جاتا ہے۔ تاہم زرداری جتنی شدت سے دوستی نبھاتے ہیں اتنی ہی شدت سے دشمنی بھی کرتے ہیں۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ زرداری بے نظیر بھٹو سے باقاعدہ محبت کرتے تھے اور آج بھی ان کا تذکرہ ہو جائے تو ان کی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ آصف زرداری بتاتے ہیں کہ بی بی کی شہادت کے بعد سے ان کا بیڈ روم آج بھی ویسے ہی محفوظ ہے جیسے انہوں نے چھوڑا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ جب مجھے بی بی کی زیادہ یاد آتی ہے تو میں اس کمرے میں جا کر بیٹھ جاتا ہوں۔ آصف زرداری اپنے بچوں کو بھی دل وجان سے پیار کرتے ہیں، تاہم آصفہ سب سے زیادہ لاڈلی ہیں جو والد کو ڈانٹ بھی لیتی ہیں، خصوصاً جب وہ اپنی صحت کا خیال نہ رکھیں اور زیادہ سگریٹ نوشی کریں۔ یاد رہے کہ جب آصفہ پیدا ہوئیں تھیں تو آصف زرداری نے انکا نام اپنے نام کی مناسبت سے آصفہ تجویز کیا، لیکن جب بی بی شہید کو نام پسند نہیں آیا تو آصف زرداری نے کہا کہ ٹھیک ہے، جب ہماری ایک اور بیٹی پیدا ہو گی تو میں اس کا نام آصفہ رکھ لوں گا۔ اس پر بقول ان کے، بے نظیر ہنسنے لگیں اور آصفہ نام رکھ لیا۔

بھلے وقتوں کے کرکٹ اسٹار اور پلے بوائے عمران خان کی زندگی اگرچہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اس کے باوجود انکے کچھ روپ سب سے الگ ہیں۔ دنیا کے بارے میں ان کا علم بھلے کئی پہلوؤں سے زیادہ ہو مگر اس کا اظہار کرتے وہ جملوں اور الفاظ کو گڈ مڈ کئے بغیر نہیں رہتے۔ اسی لیے انھیں صبح و شام یو ٹرن بھی لینا پڑتے ہیں۔ بہرحال وہ کسی کام کی ٹھان لیتے ہیں تو اسے پورا کر کے ہی دم لیتے ہیں۔ شوکت خانم کینسر ہسپتال کے لیے جیسے انھوں نے فنڈ ریزنگ کی، اس کی مثال نہیں ملتی۔ لیجنڈری سنگر نصرت فتح علی خان کے ساتھ تو وہ جس ملک میں بھی جاتے، لوگ انھیں ہاتھوں ہاتھ لیتے، خواتین اپنے زیور تک اتار دیتیں۔ عمران کے بارے میں بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ وہ پیروں فقیروں اور صوفی ازم کی طرف بشریٰ بی بی کی صحبت کے بعد مائل نہیں ہوئے بلکہ دین سے لگاؤ انھیں ہمیشہ سے رہا ہے۔ ناقدین کہتے ہیں کہ ان کی شخصیت شروع سے ہی تضادات کا شکار رہی ہے۔ جو لوگ زمان پارک میں واقع عمران کے گھر جایا کرتے تھے ان کا کہنا ہے کہ خان صاحب کے والد کا نام اللہ نیازی تھا وہ ان کے دوستوں کو اکثر سمجھایا کرتے تھے کہ عمران کے پیچھے لگ کر اس جیسا بننے کی بجائے بہتر انسان بننے کی کوشش کرو۔

Related Articles

Back to top button