نیا آرمی چیف سنیارٹی کی بنیاد پر تعینات کرنے پر اتفاق

اسلام آباد میں وزیراعظم شہباز شریف کی نواز شریف سے ملاقات کے بعد یہ اطلاع سامنے آرہی ہے کہ نئے الیکشن حکومتی مدت پوری ہونے پر اگلے برس کرانے کا جو فیصلہ مئی میں کیا گیا تھا وہ برقرار ہے، اس کے علاوہ اگلے آرمی چیف کی تعیناتی بھی تنازعے سے بچنے کے لیے سنیارٹی کی بنیاد پر نومبر میں جنرل قمر باجوہ کی ریٹائرمنٹ سے چند ہفتے پہلے کی جائے گی۔ باخبر ذرائع کے مطابق شہباز شریف نے اپنے پارٹی قائد نواز شریف کو آگاہ کیا ہے کہ جنرل باجوہ کی معیاد میں مزید توسیع بارے کوئی تجویز زیر غور نہیں اور وہ پہلے ہی فوجی ترجمان کے ذریعے بڑے واضح الفاظ میں نومبر میں اپنے ریٹائیر ہونے کی خواہش بارے بتا چکے ہیں۔
جنرل باجوہ کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ عمران خان کی جانب سے توسیع کی تجویز کا جنرل قمر باجوہ سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اس حرکت کا بنیادی مقصد نئے آرمی چیف کی تعیناتی کو متنازعہ بنانا ہے۔ نون لیگی ذرائع کے مطابق نون لیگی قیادت کی مشترکہ ملاقات کے علاوہ نواز شریف اور شہباز شریف نے ایک علیحدہ ملاقات بھی کی جس میں نئے آرمی چیف کے حوالے سے تفصیلی گفتگو ہوئی اور یہ تجویز زیر غور آئی کہ کسی غیر ضروری تنازعے سے بچنے کے لیے سینئر موسٹ جرنیل کو فوجی سربراہ بنایا جائے۔
اگلے آرمی چیف کی تعیناتی بارے بڑھتی قیاس آرائیوں کے پیش نظر وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی لندن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس تعیناتی کو کسی سیاسی تنازع کا حصہ نہیں بنانا چاہیے کیونکہ اس سے فوج کے ادارے کو نقصان پہنچتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی اپنے وقت پر اور میرٹ کے عین مطابق ہوگی۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے وزیر دفاع یہ تجویز دے چکے ہیں کہ کسی تنازعہ سے بچنے کے لیے چیف جسٹس سپریم کورٹ کی طرح آرمی چیف کی تعیناتی بھی سنیارٹی کی بنیاد پر کرنے کا قانون بنا لیا جائے۔ نون لیگی ذرائع کا کہنا ہے کہ نواز شریف اور شہباز شریف کی ملاقات میں یہ تجویز بھی زیر غور آئی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق شہباز شریف کی نواز شریف سے ملاقات میں اگلے عام انتخابات کے انعقاد کے علاوہ پنجاب میں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کی مخلوط حکومت کی ممکنہ تبدیلی سمیت متعدد امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ شریف برادران نے اس بات پر اتفاق کیا کہ دباؤ کے باوجود پی ڈی ایم حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے گی اور اگلے عام انتخابات مقررہ وقت پر ہی ہونے چاہئیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے نواز شریف کو بتایا کہ موجودہ حکومت کی آئینی مدت اگست 2023 میں ختم ہو گی جس کے بعد تیسرے مہینے یعنی اکتوبر میں نئے الیکشن ہونگے۔ ملاقات میں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کی زیر قیادت پرویز الہی پنجاب حکومت کو ہٹانے پر بھی غور کیا گیا اور وزیر اعلیٰ کے عہدے کے لیے حمزہ شہباز سمیت دیگر امیدواروں کے ناموں پر غور کیا گیا۔
لندن میں حسین نواز کے دفتر میں شریف خاندان کی تین گھنٹے طویل ملاقات کے پہلے راؤنڈ میں شہباز شریف نے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے بھی پاکستانی معیشت سنبھالنے کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا۔ لیکن وزیر دفاع خواجہ محمد آصف اور وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کو اس اجلاس میں مدعو نہیں کیا گیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس ملاقات کے بعد ہونے والی دو بھائیوں کی ایکسکلوسو ملاقات میں نئے آرمی چیف کے حوالے سے تفصیلی گفتگو ہوئی، لیکن نئے نام کے حوالے سے مکمل رازداری برتی جا رہی ہے۔ اس بارے گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ نئے آرمی چیف کے تقرر کا طریقہ کار وہی ہوگا جومکہ برسوں سے جاری ہے، انکا کہنا تھا کہ آرمی چیف کی تعیناتی ہر 3 برس بعد ہوتی ہے جس پر عمران خان کے علاوہ کسی کو کوئی پریشانی لاحق نہیں۔وزیر دفاع نے کہا کہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی کا عمل جنرل باجوہ کی ریٹائرمنٹ سے 2 یا 3 ہفتے قبل شروع ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ میں یہ لازمی کہوں گا کہ آرمی چیف کی وفاداری اپنے وطن سے ہے جو کسی سیاستدان کے ماتحت نہیں اور دوسری بات یہ کہ ان کی اپنے ادارے کے ساتھ بھی وفاداری ہے۔ وزیر دفاع نے کہا کہ آرمی چیف ہی وہ شخص ہوتا ہے جو 7 لاکھ فوجی افسران کو کمانڈ کرتا ہے اور جسکی ایک پکار پر جوان اپنی جانیں دینے کے لیے تیار ہوتے ہیں، لہذا اتنے اہم عہدے کو کسی سیاسی تنازعے کا حصہ نہیں بنانا چاہیے اور ایسا کرنے والوں کی سرکوبی کرنی چاہئے۔
خیال رہے کہ خواجہ آصف کا اشارہ عمران خان کے حالیہ بیان کی جانب تھا جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ نواز شریف اور آصف زرداری بدعنوانی کے مقدمات سے بھاگنے کے لیے اپنی پسند کا آرمی چیف تعینات کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ وہ موجودہ حکومت کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
اسکے بعد جنرل باجوہ سے ایک خفیہ ملاقات کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد عمران خان نے آرمی چیف کے تقرر کو نئی حکومت کے آنے تک مؤخر کرنے کی تجویز دے دی تھی، عمران کے اس بیان کو فوجی اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات بحال کرنے کی کوشش قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ اس سے پہلے عمران جنرل باجوہ کے خلاف زہریلی پروپیگنڈا مہم چلا رہے تھے۔ جنرل باجوہ اور اسٹیبلشمنٹ بارے عمران کے بدلتے ہوئے بیانیے کو فسرن فنڈنگ اور دیگر کیسز میں ممکنہ نااہلی سے بچنے کی کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔

Related Articles

Back to top button