وزیر آباد میں عمران کا کنٹینر 22 دن بعد بھی وہیں کیوں کھڑا ہے؟

سابق وزیراعظم عمران خان پر وزیرآباد میں ہونے والے قاتلانہ حملے کو تین ہفتے گزر گئے لیکن فائرنگ کا نشانہ بننے والا کنٹینر اب بھی حملے کے مقام پر سڑک کے بیچوں بیچ کھڑا ہے جسے قناتیں لگا کر کور کر دیا گیا ہے۔ پنجاب حکومت اس حملے کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات کر رہی ہے لیکن تین ہفتے سے زائد دن گزر جانے کے باوجود کئی اہم ترین سوالات جواب طلب ہیں۔

 

یاد رہے کہ عمران کے ’حقیقی آزادی لانگ مارچ‘ کے دوران تین نومبر 2022 کو جی ٹی روڈ پر واقع مرکزی شہر وزیر آباد میں عمران کے کنٹینر کو قریب سے نشانہ بنایا گیا تھا۔ فائرنگ کرنے والے کو زندہ گرفتار کر لیا گیا تھا جس کی بعد میں شناخت نوید احمد کے نام سے ہوئی تھی جو تحریک لبیک کا ایک مذہبی جنونی نکلا۔ نوید کا کہنا تھا کہ اس نے عمران کو مارنے کا فیصلہ اس لیے کیا کہ وہ اپنا موازنہ نبی کریمؐ سے کرتے تھے جو کہ حضور پاکؐ کی شان میں گستاخی کے مترادف ہے۔ اس حملے کی تحقیقات پنجاب حکومت اعلیٰ سطح پر کر رہی ہے لیکن 23 دن گزر جانے کے باوجود کارروائی آگے نہیں بڑھ پائی۔ عمران خان کے اور پنجاب حکومت نے حملے کی تحقیقات کرنے والی ٹیم کے تین سربراہ تبدیل کیے۔ لیکن اب تیسرا سربراہ غلام محمد ڈوگر بھی متنازع ہو گیا ہے چونکہ عدالت نے وفاقی حکومت کی جانب سے اسے معطل کرنے کے فیصلے کی توثیق کر دی ہے لہذا اب وہ سربراہی کے قابل نہیں رہے۔ دوسری جانب عمران 26 نومبر کو راولپنڈی پہنچ رہے ہیں، جہاں وہ جلسہ کریں گے۔

 

وزیرآباد کے قاتلانہ حملے کے بعد خوفزدہ ہو جانے والے عمران خان کی ضد ہے کہ ان کو ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر راولپنڈی پہنچنے کی اجازت دی جائے۔ بتایا جا رہا ہے کہ راولپنڈی میں ان کے لیے ایک نیا کنٹینر تیار کیا گیا ہے جس پر موجود ایک بلٹ پروف کنٹینر کے پیچھے سے خان صاحب خطاب کریں گے۔ دوسری جانب وزیر آباد میں حملے کا نشانہ بننے والا کنٹینر  اب بھی سڑک کے بیچوں بیچ کھڑا ہے اور اسے قناتوں میں لپیٹ دیا گیا ہے۔ اس کنٹینر کو تین ہفتے بعد بھی نہ ہٹائے جانے سے مقامی تاجر سخت نالاں ہیں کیونکہ ان کا کاروبار متاثر ہو رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ چونکہ ماضی میں بے نظیر بھٹو پر حملے کے بعد لیاقت باغ کی فوراً صفائی پر شدید تنقید کی گئی تھی اور ایسا کرنے والے افسران کو عدالتی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا، لہٰذا اس مرتبہ اسے ہٹانے کا کوئی جلد فیصلہ اسی لیے نہیں کیا جا رہا۔ عمران کا یہ کنٹینر تین نومبر کی سہ پہر وزیر آباد کے اللہ والا چوک سے چند قدم پہلے جیسے ہی ون فائیو دفتر کے سامنے پہنچا تو اچانک فائرنگ شروع ہو گئی۔ پولیس اور عینی شاہدین کے مطابق فائرنگ کرنے والے حملہ آور محمد نوید کو لوگوں نے موقع سے ہی پکڑ لیا۔

 

حملہ آور نے کنٹینر کو شہر میں داخل ہونے کے چند کلومیٹر بعد چند قدم کے فاصلے سے نشانہ بنایا تھا۔ حملہ آور نے بائیں جانب سے فائر کیے جہاں قریب میں ہی ایک رینٹ اے کار کمپنی کا احاطہ تھا۔ دفتر کے سیاہ رنگ کے گیٹ کے قریب سے حملہ آور پکڑا گیا اور وہیں پی ٹی آئی کارکن معظم گوندل گولی لگنے سے ہلاک ہوا۔ فائرنگ کنٹینر کے بالکل ساتھ تقریباً دس فٹ کی دوری سے کی گئی۔ کنٹینر کی چھت پر لوہے کی دو دو فٹ اونچی دیوار لگی تھی، جن میں بھی گولیوں کے نشان موجود ہیں۔

وزیر آباد شہر کو وزیراعلیٰ پنجاب نے تحصیل سے ضلع کا درجہ دے دیا ہے مگر ابھی تک ضلعی انتظامی افسران تعینات نہیں ہو سکے ہیں۔ گرفتار ہونے والے حملہ آور نوید کا مکان بھی اس جگہ سے نو کلومیٹر دور سیالکوٹ روڈ پر ایک گاؤں سوہدرہ کی تنگ اور پسماندہ محلہ کی گلی میں واقع ہے۔ ابتدائی تفتیش کے مطابق ملزم موٹر سائیکل پر جائے وقوعہ پر پہنچا اور وہ تحریک لبیک کا ایک متحرک کارکن ہے جس نے کنٹینر پر فائرنگ سے پہلے لبیک یا رسول اللہ کا نعرہ بھی بلند کیا۔ تاہم عمران خان کا اصرار ہے کہ ان پر حملہ  ایک سازش تھی جس میں شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ کے علاوہ آئی ایس آئی کے ڈی جی کاؤنٹر انٹیلی جنس میجر جنرل فیصل نصیر بھی شامل تھے۔

Related Articles

Back to top button