وفاق اور پنجاب کی کشمکش میں سرکاری افسران پسنے لگے


پنجاب میں حمزہ شہباز کی حکومت کے خاتمے اور پرویز الٰہی کے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد سے مرکز اور صوبے کے مابین محاذ آرائی ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی چلی جاتی رہی ہے، جس میں سرکاری افسران پس کر رہ گئے ہیں۔ عمران خان کی جانب سے پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو قرار دیے جانے والے پرویز الٰہی مسلسل وفاقی حکومت کو چیلنج کر رہے ہیں اور اس کے لیے مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔ ایک طرف وفاقی حکومت تحریک انصاف کے لگائے افسروں کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تو دوسری جانب پنجاب میں تحریک انصاف سے تعاون کرنے والے سرکاری افسران بھی سیاسی دھکم پیل میں گھرے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ ن لیگی رہنماؤں کے خلاف کیسز درج کرنے پر وفاقی حکومت نے سی سی پی او لاہور کو عہدے سے ہٹانے کا اختیار استعمال کیا تو پرویز الٰہی نے یہ کوشش ناکام بنا دی اور سی سی پی او کو کام جاری رکھنے کی ہدایت کر دی۔

اس سے پہلے حمزہ شہباز کے دور میں لگائے گئے چیف سیکرٹری پنجاب کامران علی افضل کا پرویزالٰہی سے میچ پڑا تو وہ اپنی ریٹائرمنٹ تک چھٹیوں پر چلے گئے حالانکہ وفاقی حکومت نے انہیں کام جاری رکھنے کی ہدایت کی تھی۔ کامران علی افضل کے جانے کے بعد پرویز الٰہی نے ان کے لگائے گئے تمام افسران کو اوایس ڈی بنا دیا ہے حالانکہ یہ سب لوگ قابل افسر ہیں۔ ایسے میں وفاق اور پنجاب میں کشیدگی بڑھتی چلی جارہی ہے۔ حال ہی میں وفاقی وزیر داخلہ نے اسلام آباد میں سکیورٹی برھانے کے لیے پنجاب سے پولیس کی نفری مانگی تو پنجاب حکومت نے صاف جواب دے دیا۔ اس سے پہلے پرویز الٰہی نے اقتدار سنبھالنے کے بعد پنجاب میں ایسے تمام پولیس افسران کے خلاف کریک ڈائون کر دیا جنہوں نے 25 مئی کو عمران خان کے لانگ مارچ کو ناکام بنانے میں کردار ادا کیا تھا۔ پھر وفاقی حکومت کی جانب سے لاہور کی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو عمران خان کے فوج مخالف سیاسی خطاب پر عہدے سے ہٹانے کی ہدایت کی گئی لیکن پنجاب حکومت نے انکار کر دیا۔

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق وفاقی اور صوبائی حکومت مخالف جماعتوں کی ہو تو ماضی میں بھی ایسا تناؤ پیدا ہوتا رہا ہے مگر اس حد تک ٹکراؤ پہلے بہت کم دیکھنے میں آیا تھا۔ ان کے خیال میں جب تک انتخابات نہیں ہوں گے سیاسی بحران ختم نہیں ہو گا۔ سینئر صحافی مجیب الرحمن شامی کا کہنا ہے کہ وفاق اور صوبے میں جب مختلف جماعتوں کی حکومت ہو تو اس طرح کے حالات ماضی میں بھی دیکھے گئے۔ لیکن اس بار حالات کافی مختلف ہیں کہ پنجاب اور وفاق کے درمیان سرکاری افسران کے تقرر و تبادلوں پر سیاست کی جا رہی ہے۔ شامی کے بقول یہ بات طے ہے کہ آئینی طور پر کئی محکموں کے سربراہان وفاقی حکومت کے ماتحت افسران کو تعینات کیا جاتا ہے لیکن اس میں صوبوں کی مرضی بھی شامل ہوتی ہے۔

لیکن اس بار جو افسران پنجاب میں کام کررہے ہیں چاہے وہ سی سی پی او لاہور ہوں یا گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے وائس چانسلر، انہیں سیاسی ایشوز پر اگر وفاقی حکومت عہدوں سے ہٹانا چاہے گی تو پنجاب حکومت کی مزاحمت تو حقیقی ہے اور پھر وہ بھی پھر اپنا اختیار استعمال کریں گے۔ان کے مطابق 25 مئی کو پی ٹی آئی لانگ مارچ کے وقت پنجاب میں ن لیگ کی حکومت تھی لہٰذا پولیس افسران نے حکام کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے امن و امان کو قائم رکھا اور کارروائی کی۔ مگر جب حکومت تبدیل ہوئی تو پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ پنجاب حکومت نے ان پولیس افسران کے خلاف کارروائی شروع کر دی جنہوں نے احکامات کی تعمیل کی تھی۔ اسی طرح سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر اور وائس چانسلر جی سی یونیورسٹی پروفیسر اصغر زیدی اگرچہ وفاقی حکومت کےماتحت ہیں لیکن وہ تعینات پنجاب میں ہیں اور یہاں کے حکام کے مطابق کام کریں گے لہذا وفاقی حکومت کو اداروں کی خود مختاری میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق اصل مسئلہ یہ ہے کہ وفاق اور پنجاب میں جن جماعتوں کی حکومت ہے وہ ایک دوسرے کے شدید مخالف ہیں اور مخالفت سیاست سے بڑھ کر ذاتی نوعیت کے ایک دوسرے کے خلاف مقدمات درج کرنے اور گرفتاریوں تک پہنچ چکی ہے۔ انکے مطابق وفاقی حکومت اپنے اختیارات استعمال کر رہی ہے جب کہ جہاں موقع ملتا ہے پنجاب حکومت بھی جواب دینے یا کارروائی سے اجتناب نہیں کر رہی ہے۔ مسئلہ زیادہ خراب اس لیے ہے کہ عمران خان اپنی سیاست کو نظام سے اوپر سمجھتے ہیں اور اسی لئے بار بار یہ دھمکی دیتے ہیں کہ وہ جب چاہیں اسلام آباد کو کے پی اور پنجاب حکومت کے ذریعے جام کر سکتے ہیں۔ اسی طرح وفاق میں جب پی ٹی آئی رہنماؤں کے خلاف کارروائی شروع ہوئی تو خان صاحب کی ہدایت پر پنجاب میں بھی ن لیگی رہنماؤں کے خلاف کارروائی کا آغاز کر دیا گیا جس سے حالات مزید کشیدہ ہو گئے۔

لیکن مجیب الرحمنٰ شامی کے بقول سیاسی صورتحال جتنی بھی کشیدہ ہوجائے فی الحال تحریک انصاف کی جانب سے فوری لانگ مارچ کرنا اتنا آسان نہیں ہو گا۔ پنجاب اور کے پی کے میں حکومت چاہے ان کی ہے لیکن وفاقی حکومت سے زیادہ موثر نہیں ہوسکتیں اور نہ ہی ادارے ایک دوسرے کے سامنے ہونے کو تیار ہوں گے اس لیے ان حالات میں صرف سیاست تو ہو سکتی ہے مگر حالات خراب نہیں کیے جا سکتے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن کی حکومتوں کے درمیان بیان بازی یا سرکاری افسران کے تقرروتبادلوں کا سلسلہ تو بڑھنے کا امکان ہے مگر جیسے خان صاحب دعویٰ کر رہے ہیں کہ وہ اسلام آباد کا گھراؤ کریں گے یا ان کے بقول وہ کوئی آخری واردات کریں گے تو ایسے حالات دکھائی نہیں دیتے۔ وہ اس لیے کہ اگر وہ پنجاب اور کے پی حکومت کی مشینری استعمال کرنے کا سوچ رہے ہیں تو وفاق کے ماتحت رینجرز اور دیگر سکیورٹی ادارے بھی ہیں اور پنجاب پولیس ان اداروں کے سامنے کبھی نہیں کھڑی ہو گی۔

Related Articles

Back to top button