ووٹرز نے نون لیگ کو ووٹ کی عزت پامال کرنے کی سزا دی


پنجاب کے ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کی شکست کی وجوہات بارے تیار کردہ رپورٹ میں اس حقیقت کو تسلیم کر لیا گیا ہے کہ نواز لیگ کے حمایتیوں نے پارٹی قیادت کو ووٹ کو عزت دینے کا بیانیہ پامال کرنے کی سزا دی۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ لیگی ووٹرز نے پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کو ن لیگ کے امیدوار بنانے کا فیصلہ رد کرتے ہوئے انہیں ووٹ نہیں دیے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ تمام تر کوششوں کے باوجود ن لیگ کی قیادت الیکشن والے دن اپنے ووٹرز کو باہر نکالنے میں ناکام رہی۔ نواز لیگ کی شکست کی دیگر وجوہات میں مہنگائی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کو بھی اہم فیکٹرز قرار دیا گیا ہے۔یہ انکشاف وزیراعظم شہباز شریف کے زیر صدارت ہونے والے ایک اجلاس میں کیا گیا جس میں شکست کی وجوہات بارے رپورٹ پیش کی گئی۔

شہباز شریف کے زیر صدارت اجلاس میں رپورٹ مسلم لیگ ن کے سینئر رہنمائوں سردار ایاز صادق، خواجہ سعد رفیق اور رانا ثناء اللہ کی جانب سے پیش کی گئی۔رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ہارنے والے حلقوں میں اپنی جماعت کے امیدوار نہ ہونے کے باعث ن لیگی ووٹرز نے الیکشن والے دن ووٹ نہیں ڈالا۔ یعنی بھاڑے کے امیدوار نواز لیگ کی شکست کا باعث بنے۔ پنجاب کے ضمنی الیکشن میں پچھلے الیکشن کے مقابلے میں ووٹرز ٹرن آؤٹ میں اضافے کی وجہ بیان کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ پی ٹی آئی ووٹرز اپنے منحرف اراکین کے خلاف ووٹ ڈالنے کے لیے بڑی تعداد میں باہر نکلے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ مسلم لیگ ن کے امیدواروں کے ضمنی انتخابات میں ہارنے کی وجہ مہنگائی میں اضافہ اور پیٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی قیمتیں تھیں لیکن یہ صرف عوامل تھے۔ اصل مسئلہ یہ کہ مسلم لیگ (ن) کا بیانیہ ووٹ کو عزت دینے کا تھا لیکن اس کے برعکس پارٹی قیادت نے سیاسی لوٹوں کو عزت دینے کا فیصلہ کیا اور اپنی عزت کا جنازہ نکلوا دیا.

دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی سربراہی میں بھی ویڈیو لنک پر پارٹی کا ایک ہنگامی اجلاس ہوا جس میں پنجاب اسمبلی کے ضمنی انتخابات سے متعلق رپورٹ پیش کی گئی۔ نواز شریف کی سربراہی میں شریک اہم رہنماؤں کے اجلاس میں شہباز شریف، حمزہ شہباز، مریم نواز، رانا ثناء اللہ خان، ملک احمد خان، خواجہ سعد رفیق، خواجہ آصف، ایاز صادق، عطا تارڑ، اویس لغاری اور مریم اورنگزیب شامل تھے۔ اجلاس کے دوران پنجاب میں ضمنی انتخابات بارے رپورٹ پیش کی گئی، جس میں شکست کی بنیادی وجہ مقامی رہنماؤں کی آپسی نااتفاقی کو قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پارٹی ورکرز نے پی ٹی آئی کے منحرفاراکین کو اپنے امیدواروں کے طور پر قبول نہیں کیا اور پارٹی رہنماؤں نے بھی کھل کر انتخابی مہم نہیں چلائی، اس کے علاوہ مہنگائی، پیڑول کی قیمت اور ڈالر کی اُڑان بھی شکست کی وجہ بنی۔

یاد رہے کہ 17 جولائی کی رات مسلم لیگ ن کو تحریکِ انصاف کے ہاتھوں اپنی سیاسی تاریخ کی سب سے بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سے قبل مسلم لیگ ن کو کبھی پنجاب میں اتنی بڑی تعداد میں انتخابی حلقوں سے شکست کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ 1993 میں اسلامی جمہوری اتحاد سے علیحدگی کے بعد سے ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ پنجاب کے کسی الیکشن میں ن لیگ کو محض 25 فیصد نشستیں ملی ہوں۔ 2002 کا الیکشن بلاشبہ ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے لیکن اول تو اس الیکشن کی کوئی ساکھ عوامی سطح پر موجود نہیں تھی اور ایک آمر کی ناک کے نیچے ہوئے الیکشن میں پوری سیاسی جماعت توڑ کر اس میں سے ایک علیحدہ جماعت بنا دیے جانے کے بعد ہوئے الیکشن کوئی معنی نہیں رکھتے۔

جمہوری ادوار میں ہوئے انتخابات دیکھے جائیں تو 1993 اور 2018 دو واحد انتخابات ہیں گذشتہ 30 سال میں کہ جب مسلم لیگ ن پنجاب میں حکومت نہیں بنا سکی لیکن یہ دونوں الیکشن بھی اس نے جیتے۔ پنجاب میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں۔ لہٰذا یہ کہنا بالکل غلط ہوگا کہ چونکہ یہ سیٹیں ماضی میں تحریکِ انصاف کی تھیں، انہیں ہی جیتنی چاہیے تھیں۔ 2018 سے ن لیگ اُس الیکشن کو دھاندلی زدہ قرار دیتی آئی ہے، اگر یہ سیٹیں دھاندلی سے پی ٹی آئی کو دی گئی تھیں تو یہ ن لیگ کو واپس حاصل کرنی چاہیے تھیں، اور اس میں ناکامی کو اسے تسلیم کرنا چاہیے۔

سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ پنجاب کے ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ ن عمران خان کے بیانیے کا مقابلہ کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی۔ لوگ سوشل میڈیا ٹیم کی ناکامی کو رو رہے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ سوشل میڈیا کا بیانیہ بھی اوپر سے ہی بنانا پڑتا ہے۔ پی ٹی آئی کا بیانیہ عمران خان بنا رہے تھے، شہباز شریف کئی ہفتوں تک قوم سے خطاب ہی نہ کر سکے۔ اس دوران عمران مسلسل عوامی رابطہ جاری رکھے ہوئے تھے۔ مریم نواز کو سائیڈ لائن کیا گیا۔ اب کچھ لوگ ضمنی انتخابات میں شکست کو ان کی ناکامی قرار دینا چاہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مریم نواز کو جلسے کرنے کا جو ٹاسک دیا گیا تھا، انہوں نے بڑی کامیابی سے اسے نبھایا۔ اس شکست میں ان کا سرے سے کوئی کردار نہیں، اس کی ذمہ داری ان پر نہیں عائد کی جا سکتی۔ نواز شریف لندن میں قیام پذیر ہیں، شہباز شریف وزارتِ عظمیٰ کا تاج پہن کر وزیر اعظم ہاؤس میں مقید ہو چکے ہیں۔ حمزہ شہباز کوئی عوامی قسم کے مکرر نہیں۔ مریم نواز کی زباں بندی کروا دی گئی۔ ایسے میں بیچاری ‘شوشل میڈیا ٹیم’ کو الزام دینا ظلم ہے۔

سیاسی تجزیہ کار یہ بھی سوال کرتے ہیں کہ کیا عمران خان کے امریکی سازش کے بیانیے کے جواب میں ‘گوگی’ اور ‘پنکی’ کی ‘کرپشن’ کے الزامات کیا درست حکمتِ عملی تھی؟ ن لیگ گذشتہ کئی سالوں سے اپنے ‘ترقیاتی کاموں’ کے نام پر ووٹ لیتی رہی ہے۔ نواز شریف کے ‘ووٹ کو عزت دو’ کے بیانیے نے بھی اس کو عوامی پذیرائی بخشی۔ لیکن کیا عمران خان کے الزامات پر جوابی الزامات ایک بیانیے کے طور پر کارگر ہوں گے؟ فی الحال ایسا دکھائی نہیں دیتا۔ یہ بھی ایک عجیب بات دیکھنے میں آئی ہے کہ ن لیگ جو ہمیشہ سے اپنی الیکشن ڈے کی انتظامی مہارت کے لئے مشہور رہی ہے، اس ضمنی الیکشن میں بالکل بے بس دکھائی دی جس کی بنیادی وجہ اس کے ووٹر کا اس کے ساتھ کھڑا نہ ہونا بنی۔

Related Articles

Back to top button