معیشت کی بحالی کے لیے پٹرول پرسبسڈی کا خاتمہ لازمی کیوں

 

پاکستان میں عمومی تاثر یہی ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 30 روپے فی لیٹر اضافے سے مہنگائی کا ایک طوفان آئے گا

اور عوام کی چیخیں نکل جائیں گی، تاہم حقیقت یہ ہے کہ اس فیصلے سے ملکی معیشت پر مجموعی طور پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے اور یہ بحالی کی جانب گامزن ہو جائے گی کیونکہ سبسڈی کے خاتمے سے مالیاتی خسارہ کم ہوگا اور پاکستان کے بیرونی شعبے میں ادائیگیوں کو سہارا ملے گا۔ وجہ یہ ہے کہ اس سبسڈی کی صورت میں پیسے پاکستان آئیں گے۔

یاد رہے کہ جب حکومت کی جانب سے عوام کو سبسڈی دی جاتی ہے تو ملک کا مالیاتی خسارہ بڑھتا ہے اور اس کے خاتمے سے مالیاتی خسارے کو کم کرنے میں مدد ملے گی جو ملک کے لیے اس وقت سب سے بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔

استعفے کے مطالبے پر الیکشن کمشنر نے عمران کو ٹھینگا دکھا دیا

اس وقت پاکستان میں ماہانہ وفاقی حکومت چلانے کا خرچ چالیس ارب روپے جب کہ تیل پر دی جانے والی سبسڈی کی مالیت ماہانہ بنیادوں پر 118 روپے تک پہنچ گئی جو حکومتی خزانے پر بہت بڑا بوجھ بن چکی ہے اور پاکستان کے مالیاتی خسارے کو بڑھا رہی ہے۔

معاشی ماہرین کے مطابق وفاقی حکومت کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 30 روپے فی لیٹر اضافہ ملکی تاریخ میں ایک بار میں ہونے والا سب سے بڑا اضافہ ہے جسے مجبوری کی حالت میں اٹھایا جانے والا اقدام قرار دیا گیا ہے۔ دنیا میں تیل مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد سابقہ حکومت نے اس سال یکم مارچ سے ڈیزل و پیٹرول کی قیمتوں کو منجمد کر دیا تھا۔ تاہم ڈیزل کی 144 روپے فی لیٹر اور پیٹرول کی 149 روپے فی لیٹر پر فراہمی کے لیے حکومت کو خزانے سے سبسڈی دینا پڑتی تھی۔ مارچ میں حکومت کو 33 ارب روپے، اپریل میں ساٹھ ارب روپے اور مئی میں ایک سو بیس ارب روپے کے لگ بھگ سبسڈی ادا کرنی پڑی۔ ایک جانب حکومت کو خزانے سے اربوں روپے ماہانہ کی سبسڈی ادا کرنی پڑ رہی ہے تو دوسری جانب آئی ایم ایف نے پاکستان کے لیے قرض پروگرام کی بحالی کو تیل و بجلی پر دی جانے والی سبسڈی کے خاتمے سے مشروط کر رکھا ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام کے معطل ہونے سے پاکستان کے لیے دوسرے عالمی اداروں سے بھی فنڈنگ رکی ہوئی ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان میں ماہانہ وفاقی حکومت چلانے کا خرچ چالیس ارب روپے جب کہ تیل پر دی جانے والی سبسڈی کی مالیت ماہانہ بنیادوں پر 118 روپے تک پہنچ گئی جو حکومتی خزانے پر بہت بڑا بوجھ بن چکی ہے اور پاکستان کے مالیاتی خسارے کو بڑھا رہی ہے۔ ۔معاشی ماہرین کے مطابق ماہانہ بنیادوں پر سبسڈی کی جو مالیت بنتی ہے اس حساب سے ملک کو سالانہ بنیادوں پر بارہ سو ارب روپے کی سبسڈی ادا کرنا پڑتی ہے جب کہ وفاقی حکومت کا سالانہ خرچہ چار سو ارب روپے ہے۔ یہ بارہ سو ارب کا نقصان اس ملک کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے، جس کا بجٹ خسارہ اس مالی سال کے اختتام پر پانچ ہزار ارب روپے ہو جائے گا جبکہ آئی ایم ایف پاکستان سے کہہ رہا ہے کہ خسارے کو 3500 ارب روپے کی حد تک لے کر آئیں۔

ماہرین معیشت کے مطابق ملک کی معاشی حالت تیل مصنوعات پر دی جانے والی ماہانہ اربوں کی سبسڈی کا متحمل نہیں ہو سکتی، جس کی وجہ سے ملک کے بجٹ کا خسارہ تیزی سے بڑھ رہا ہے اور عالمی مالیاتی ادارے نے بھی پاکستان کے قرضے پروگرام کی بحالی کو روک رکھا ہے۔ ماہرین کے مطابق تیل مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے عام آدمی تو متاثر ہوگا تاہم طویل مدتی پالیسی کے تحت اگر اسے دیکھا جائے تو یہ ملک کی معاشی صورتحال کے لیے بہتر ہے کہ ملک کا بجٹ کا خسارہ کم ہوگا اور اس کا مثبت اثر عالمی مالیاتی اداروں سے فنانسنگ حاصل کرنے میں مدد فراہم کرے گا۔

تیل مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے جمعے کو پاکستان میں ڈالر کی قیمت میں نمایاں کمی دیکھی گئی جبکہ دوسری جانب سٹاک مارکیٹ میں بھی تیزی کا رجحان دکھائی دیا۔ ایکسچینج کمپنیز آف ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری ظفر پراچہ کے مطابق اس کی وجہ سبسڈی کے جزوی طور پر خاتمے کی وجہ سے آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کا امکان ہے، جس کا مثبت اثر کرنسی اور سٹاک مارکیٹ پر پڑا۔
ڈاکٹر حفیظ پاشا حکومت کی جانب سے ڈیزل و پیٹرول کی سبسڈی جزوی طور پر ختم کرنے ا ور اس کی قیمتیں بڑھانے کے بارے میں کہتے ہیں کہ جو سبسڈی ابھی موجود ہے وہ بھی آنے والے دنوں میں ختم ہو جائے گی کیونکہ پاکستان کو بجٹ بنانے کے لیے پیسے چاہییں اور یہ آئی ایم ایف کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

انھوں نے کہا پاکستان کو موجودہ مالی سال کے اختتام تک سات ارب ڈالر بیرونی ادائیگیوں کے لیے چاہییں جبکہ اگلے سال کے لیے 30 ارب ڈالر کی رقم درکار ہوگی۔ان کے مطابق اس رقم کے ہونے سے پاکستان کے بیرونی ادائیگیوں کے شعبے میں استحکام آئے گا اور یہ آئی ایم ایف پروگرام کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ آئی ایم ایف سے ملنے والے چند ارب ڈالر نہیں ہیں بلکہ دوسرے مالیاتی اداروں سے ملنے والے پیسے بھی ہوں گے، جو کسی ملک کو پیسے دینے کے لیے آئی ایم ایف کی طرف دیکھتے ہیں۔ڈاکٹر پاشا نے کہا کہ سبسڈی کے خاتمے سے مالیاتی خسارہ کم ہوگا اور ملک کے بیرونی شعبے میں ادائیگیوں کو سہارا ملے گا کیونکہ اس سبسڈی کی صورت میں پیسے پاکستان آئیں گے۔

یاد رہے کہ جب حکومت کی جانب سے عوام کو سبسڈی دی جاتی ہے تو ملک کا مالیاتی خسارہ بڑھتا ہے اور اس کے خاتمے سے مالیاتی خسارے کو کم کرنے میں مدد ملے گی جو ملک کے لیے اس وقت سب سے بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔

Related Articles

Back to top button