پاکستانی طالبان کا ’’عمر میڈیا‘‘ کس ایجنڈے پر چل رہا ہے؟

پاکستانی دہشتگرد تنظیمیں اب صرف کارروائیوں کی حد تک محدود نہیں رہیں بلکہ اپنے مقاصد کو پروپیگنڈہ کے ذریعے آگے بڑھانے کی خاطر سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے پڑھے لکھے افراد کو بھی ساتھ ملا رہی ہیں، ایسی ہی ایک مثال تحریک طالبان پاکستان کی بھی ہے جسکا ماؤتھ پیس”عمر میڈیا” ادب اور لٹریچر کے ذریعے اپنے مقاصد پروان چڑھانے میں مصروف ہے۔ تحریکِ طالبان کے میڈیا ونگ ’’عمر میڈیا‘‘ نے 2021 میں طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد سے اپنی پروپیگنڈا کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔اس پیشرفت کا ٹی ٹی پی کی حالیہ بڑھتی کارروائیوں میں ایک اہم کردار رہا ہے، اس میڈیا ونگ کا نام افغان طالبان کے بانی ملا محمد عمر کے نام پر رکھا گیا ہے اور یہ میڈیا گروپ ٹی ٹی پی کی نام نہاد ’’وزارتِ اطلاعات و نشریات‘‘ کے ماتحت کام کرتا ہے۔

حال ہی میں ٹی ٹی پی کے میڈیا ونگ کے ذریعے اعلان کیا گیا ہے کہ عمر میڈیا کو فالو کرنے والے جو حضرات مضامین لکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، وہ اسکے میگزین کے لیے اُردو زبان میں مضامین لکھ کر اسے ایک مخصوص آئی ڈی پر ارسال کریں۔ ’عمر میڈیا‘ کی جانب سے آڈیو، ویڈیو اور ٹیکسٹ مواد اُردو اور پشتو زبانوں میں شائع کیا جاتا ہے اور پھر اسے انگریزی، دری، فارسی اور عربی میں ترجمہ کر کے دوبارہ شائع کیا جاتا ہے، اس میں متعدد ویڈیو سیریز، روزانہ کا ریڈیو براڈ کاسٹ، ہفتے میں دو بار نشر ہونے والی حالاتِ حاضرہ کی پوڈکاسٹ، ایک اردو میگزین اور ٹی ٹی پی کی جانب سے روزانہ کے حملوں اور سیاست کے حوالے سے بیانات کی اشاعت شامل ہے۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی مشتاق یوسفزئی نے ایک حالیہ ٹاک شو میں انکشاف کیا ہے کہ عمر میڈیا کے لیے پڑھے لکھے نوجوان مقامی اور بین الاقوامی میڈیا کو مانیٹر کرتے ہیں، ٹی ٹی پی کی جانب سے دوسرے گروپس سے الحاق کرنے کا مرحلہ جولائی 2020 میں شروع ہوا۔ اس دوران 22 شدت پسند گروہوں نے اس تنظیم میں شمولیت اختیار کی جن میں اس کے سابقہ بکھرے ہوئے گروپس، 11/9 کے بعد پاکستان میں القاعدہ کے حمایتی گروہ اور افراد اور مقامی شدت پسند گروہ شامل ہیں۔ ان میں سے تین اہم گروپس میں جماعت الاحرار، حزب الاحرار اور ایک القاعدہ کا حمایتی گروہ شامل ہے جس کی سربراہی چوہدری منیب الرحمان جٹ یا کمانڈر منیب کرتے ہیں، ٹی ٹی پی کے ایک سینئر کمانڈر عمر خالد خراسانی نے اگست 2014 میں جماعت الاحرار کی بنیاد رکھی تھی۔ جماعت الاحرار سے 2017 میں علیحدہ ہونے والوں نے مل کر تنظیم حزب الحرار بنائی تھی۔ ان دونوں کی علیحدہ میڈیا برانچز تھیں جو اتنی ہی متحرک تھیں۔ اس لیے جب 2020 میں ان گروپس کا الحاق ہوا تو عمر میڈیا نے باصلاحیت اہلکاروں کو تنظیم میں شامل کیا۔ یہ دھڑا استاد احمد فاروق سے منسلک ہے، اس گروپ میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے اور اُردو بولنے والے اراکین کی بڑی تعداد شامل ہے جس سے عمر میڈیا کے کام کی کوالٹی میں بھی بہتری آئی ہے۔ اس کے علاوہ عمر میڈیا کو اگست 2021 میں جیلوں میں قید ٹی ٹی پی کے اراکین کی رہائی سے بھی فائدہ ہوا ہے۔ رہائی کے فوراً بعد ان کی عمر میڈیا میں واپسی ہو گئی تھی۔

بی بی سی اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق عمر میڈیا کے بانی اراکین میں شامل شمشیر نے حال ہی میں انکشاف کیا ہے کہ گروپ نے سال 2003 کے اواخر میں کام کرنا شروع کیا تھا لیکن پہلے دو سال تک یہ گمنام تھا۔ ٹی ٹی پی کے سینئر کمانڈر قاری حسین احمد نے سال 2006 میں اسے ’عمر سٹوڈیو‘ کا نام دیا تھا،۔2010 میں بالآخر اسے ’عمر میڈیا‘ کا نام دیا گیا تھا۔ عمر سٹوڈیو نے 2006 میں آپریشنز کا آغاز کیا تھا اور لشکرِ عمر سے متعلق ویڈیو سیریز بنائی تھی، عمر سٹوڈیو نے اگلے سال مزید دو ویڈیوز ریلیز کیں۔ ایک ویڈیو میں ملا داد اللہ کا دورہ جنوبی وزیرستان بھی دیکھا جا سکتا ہے، دوسری ویڈیو کا نام ’عبداللہ محسود کی موت کا بدلہ‘ ہے جس میں جنوبی وزیرستان میں یرغمال بنائے گئے پاکستانی فوجیوں کی فوٹیج بھی ہے جن میں ان کا سر بھی قلم کیا جاتا ہے۔

عمر میڈیا کی جانب سے مختلف اقسام کا مواد بنایا جاتا ہے لیکن ویڈیو اس میں سب سے زیادہ مقبول ہے، دسمبر 2013 میں میڈیا گروپ نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے سات سالوں کے کام کے دوران 65 ویڈیوز بنائی ہیں۔ گذشتہ تین سالوں کے دوران عمر میڈیا نے 64 ویڈیوز بنائی ہیں۔ ان کی جانب سے گذشتہ دنوں پانچ ویڈیوز پر مشتمل نئی سیریز نکالی گئی جن کے نام ’زیرِ نظر‘، ’دعوتِ جہاد‘، ’میں جہاد کا مسافر‘، ’تیار ہیں ہم‘ اور ’معرکے ہیں تیز تر‘ ہیں۔

عمر میڈیا کی جانب سے مزید دو ویڈیو سیریز جاری کی گئی تھیں۔ ان میں اب ابطالِ امت یعنی ’قوم کے ہیروز‘ کے نام سے سیریز بھی شامل ہے جو دسمبر 2013 میں لانچ کی گئی تھی اور اب تک اس کی چھ قسطیں نکالی گئی ہیں جن میں تین 2022 میں شائع کی گئی تھیں۔اس کی تازہ ترین پروڈکشنز کی کوالٹی میں واضح بہتری آئی ہے۔ ستمبر 2022 میں عمر میڈیا نے ’پاسون‘ یعنی انقلاب کے نام  سےہفتے میں دو بار پوڈکاسٹ جاری کرنے کا اعلان کیا تھا جس میں اہم سیاسی پیش رفت کے حوالے سے ٹی ٹی پی کے مؤقف کے حوالے سے بات کی گئی تھی۔

عمر میڈیا کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر عمر ریڈیو سے ریڈیو نشریات بھی کی جاتی ہیں جس پر مذہبی خطبے، کمنٹری اور قیادت کے انٹرویوز شامل ہوتے ہیں، اس کے علاوہ عمر میڈیا کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر کسی پیش رفت پر بیانات بھی جاری کیے جاتے ہیں۔ ان میں حملوں کے حوالے سے مختصر دعوے بھی کیے جاتے ہیں اور انھیں ترجمان محمد خراسانی سے منسوب کیا جاتا ہے۔

اس حوالے سے 2022 میں 300 سے زیادہ بیانات سامنے آ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ اب تک 70 تفصیلی بیانات بھی جاری کیے گئے ہیں جن میں مقامی، اس خطے میں اور بین الاقوامی طور پر ہونے والی کسی بھی پیش رفت پر بات کی گئی۔ عمر میڈیا نے نومبر 2016 سے ’تحریک طالبان‘ کے نام سے ہر سہ ماہی میں ایک میگزین شائع کیا جاتا ہے۔ یہ میگزین اردو میں شائع کیے جاتے ہیں تاہم آغاز میں اس میں پشتو میں لکھی تحریریں بھی شامل ہوتی تھیں، جنوری 2023 میں میگزین نے اعلان کیا تھا کہ اب سے وہ یہ میگزین ماہانہ شائع کریں گے، عمر میڈیا کی جانب سے سینئر اہلکاروں کی کتابیں بھی شائع کی جاتی ہیں۔ لہذا یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ عمر میڈیا باقاعدہ ایک سیاسی جماعت کی طرح منظم طریقے سے اپنی پروپیگنڈا مہم چلا رہا ہے تاکہ لوگوں کے ذہنوں کو پراگندہ کیا جا سکے۔

Related Articles

Back to top button