پرویزالٰہی کے بعد محمود خان بھی اسمبلی توڑنے کے مخالف

وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کی جانب سے عمران خان کے ایما پر پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کے حوالے سے پس و پیش کی خبر آنے کے بعد اب خیبر پختونخوا سے بھی ایسی اطلاعات آنی شروع ہو گئی ہیں کہ وزیر اعلیٰ محمود خان بھی فوری طور پر اسمبلی توڑنے پر تیار نہیں ہیں۔ تحریک انصاف کے اندرونی ذرائع کے مطابق عمران کے قریبی ساتھیوں کا اصرار ہے کہ دونوں صوبائی اسمبلیاں توڑنے کا مطلب 65 فیصد پاکستان پر اپنی بلا شرکت غیرے حکمرانی ختم کرنا ہے جو ایک دانشمندانہ فیصلہ نہیں ہو گا، خصوصاً جب فوجی کمان میں تبدیلی کے بعد فوری نئے انتخابات کا بھی کوئی امکان نظر نہیں آتا ہے۔ یاد رہے کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے معاون خصوصی برائے اطلاعات بیرسٹر سیف نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے خیبر پختونخوا سے پہلے پنجاب اسمبلی کو تحلیل کرنا ضروری ہے۔ بیرسٹر سیف نے کہا 26 نومبر کو عمران نے دونوں اسمبلیوں کو توڑنے کا اعلان کیا تھا لیکن اگر کسی وجہ سے ایک اسمبلی تحلیل نہیں ہوتی تو اس کے مطلوبہ نتائج نہیں نکلیں گے۔ انکا کہنا تھا کہ اب اگر پنجاب اسمبلی کسی بھی قانونی شق یا اپوزیشن کی مخالفت کی وجہ سے تحلیل نہیں ہوتی تو سوال بنتا ہے کہ کیا پھر خیبر پختونخوا اسمبلی توڑنے سے ہم اپنے مطالبات منوا سکیں گے؟‘ بیرسٹر سیف نے کہا کہ ایسا فیصلہ پارٹی کے مفاد میں نہیں ہو گا۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا ایک اسمبلی کو تحلیل کرنے سے جلد انتخابات کا مطالبہ تسلیم کیا جاسکے گا؟‘

 

واضح رہے کہ خیبر پختونخوا میں اب تک ڈپٹی سپیکر سمیت پانچ اراکین اسمبلی استعفیٰ وزیراعلیٰ محمود خان کو ارسال کرچکے ہیں تاہم اسمبلی سیکرٹریٹ کے مطابق انہیں فی الحال کسی رکن اسمبلی کا استعفیٰ موصول نہیں ہوا۔ دوسری جانب پنجاب میں بھی کچھ ایسی ہی صورت حال ہے اور وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی جمعرات کو بالآخر اپنے نئے قائد عمران خان کو مل کر اسمبلی نہ توڑنے پر آمادہ کرنے جا رہے ہیں۔ اس ملاقات کے بعد اس بات کا تعین ہو گا کہ تحریک انصاف پنجاب کی اسمبلی توڑ رہی ہے یا نہیں۔ اصل کہانی اس فیصلے کے بعد شروع ہو گی۔ چوہدری پرویز الٰہی کے ایک قریبی ساتھی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’وزیر اعلیٰ اس وقت اسمبلی کو تحلیل کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ صرف پرویز الٰہی ہی نہیں بلکہ تحریک انصاف کے اکثریتی ایم پی ایز بھی استعفوں کے حق میں نہیں ہیں کیونکہ اس سے فائدہ کم اور نقصان بہت زیادہ ہونے کا امکان ہے۔

 

پرویز الٰہی کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس وقت پنجاب میں بڑے پیمانے پر ترقیاتی کام ہو رہے ہیں۔ اگر حکومت ختم ہوتی ہے تو سب کچھ بیچ میں رہ جائے گا جس کا پی ٹی آئی کو نقصان ہو گا۔ انہوں نے بتایا کہ یہی وجہ ہے کہ سخت ترین فیصلہ لینے کے لیے خود پارٹی کے اندر فضا موافق نہیں ہے۔ پنجاب کے ایک صوبائی وزیر نے بتایا کہ ’ہم اس وقت مشکل صورت حال سے دوچار ہیں کیونکہ ترقیاتی کاموں کے لیے جاری فنڈ رک جائیں گے اور ہماری طاقت بھی ختم ہو جائے گی، یہی وجہ ہے کہ عمران خان اور پرویز الٰہی کی یکم دسمبر کو ہونے والی ملاقات پر سب کی نظر ہے۔ اہم ترین سوال یہ ہے کہ اگر تحریک انصاف پنجاب میں اسمبلی ختم کرنے کا فیصلہ کرتی ہے تو سیاسی صورت حال کیا ہو گی؟

 

شفاف انتخابات کے لیے کام کرنے والی تنظیم پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب سمجھتے ہیں کہ ہر دو صورتوں میں ایک نیا سیاسی بحران جنم لے گا۔ انہوں نے بتایا کہ ’اس وقت سب سے بڑی ضرورت سیاسی استحکام کی ہے جو کسی صورت نظر نہیں آرہی ۔ اور یہ بات سب کے لیے نقصان دہ ہے۔‘ دوسری جانب مسلم لیگ نون کی حکمت عملی بیان کرتے ہوئے ایک لیگی رہنما نے بتایا کہ ’ہماری حکمت عملی یہ ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنایا جائے گا۔ لیکن اصل سوال ہے کہ حکومت گرائے جانے کے بعد کیا مسلم لیگ ن حکومت بنا پائے گی؟ اس کا جواب ہے کہ نہیں اور وجہ ہے سپریم کورٹ کا وہ فیصلہ جس کے تحت حمزہ شہباز کی جگہ پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ بنایا گیا تھا۔ یاد رہے کہ اپنے فیصلے میں چیف جسٹس سپریم کورٹ عمر عطا بندیال نے قرار دیا تھا کہ پارٹی کے پارلیمانی لیڈر کی مرضی کے خلاف دیا جانے والا ووٹ شمار نہیں ہو گا، یہی وجہ ہے کہ اس وقت گیم کسی کے ہاتھ میں نہیں ہے۔‘

 

اس صورت حال میں سیاسی تجزیہ کار سہیل وڑائچ ہمیشہ کی طرح یہی سمجھتے ہیں کہ سب سیاسی قوتوں کو ایک میز پر بیٹھنا پڑے گا۔ان کے مطابق ’اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ میدان مار لے گا تو ایسا ہونا ممکن نہیں۔پلڈاٹ کے سربراہ احمد محبوب کے مطابق نون لیگ ایک خاص وقت تک صورت حال کو کنٹرول کر سکتی ہے لیکن آخر میں ان کو اس کا قابل عمل حل دینا پڑے گا۔انہوں نے کہا کہ پرویز الٰہی اس وقت حکومت چھوڑنے کے موڈ میں نہیں دکھائی دے رہے، دوسری طرف پی ڈی ایم بھی یہی چاہتی ہے لیکن دونوں کے مفادات مختلف ہیں۔ ایسے میں عمران خان کیا فیصلہ کرتے ہیں، کہانی اسی کے بعد گھومے گی۔ لیکن اہنے دونوں صوبائی وزراء اعلیٰ کو اسمبلیاں تحلیل کرنے پر آمادہ کرنا بھی عمران خان کے لیے ایک مشکل مرحلہ ہو گا۔

Related Articles

Back to top button