پس پردہ جنگ آخری مرحلے میں داخل، اندیشوں میں اضافہ


معروف لکھاری اور تجزیہ کار حماد غزنوی نے کہا ہے کہ سیاسی منظر نامے پر جو دھینگا مشتی چل رہی ہے اس کے پسِ پردہ ایک مہا یُدھ برپا ہے جس میں دونوں فریق ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں، یہ واقعی وہ جنگ ہے جس میں سب جائز قرار دیا جاتا ہے، اور یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی، ایسے میں اندیشہ ہے کہ ابھی خون ریزی بڑھے گی اور یہ تماشا آخری حد تک جائے گا، کیونکہ دست آزما قوتیں اسے ’ابھی نہیں تو کبھی نہیں‘ کا کھیل سمجھ کر کھیل رہی ہیں۔ اس کھیل کے انجام سے ڈر لگتا ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم سب ہار جائیں۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں حماد غزنوی کہتے ہیں کہ گولیوں کی تڑتڑاہٹ کی باز گشت فضا میں گونج رہی ہے، خون میں لتھڑے ہوئے لبادے نظر میں جم سے گئے ہیں، ارشد شریف اور صدف نعیم کے نام تو سب کو یاد ہیں، بہت سے بے نام لاشے بھی ہم نے خاک و خون میں غلطاں دیکھے ہیں، کوئی کنٹینر سے گر کر مر گیا اور کوئی کنٹینر کے نیچے آ کر، پھر آخر یہ لال رنگ وزیر آباد میں اس قاتل کنٹینر کی سواریوں تک بھی پہنچ گیا، لیکن خوش قسمتی سے کوئی قومی سانحہ نہیں ہوا، ورنہ آپ ہم کیا کر لیتے، وہی جو ہم نے بے نظیر بھٹو کی شہادت پر کیا تھا، قومی نفسیات میں ایک گاڑھی لال لکیر کا اضافہ کر لیتے، کچھ دن سوگ مناتے اور پھر سے لڑکھڑاتے ہوئے اپنے بے سمت سفر پر روانہ ہو جاتے۔بہرحال، شکر ہے کہ بچت ہو گئی۔ساری قوم نے متحد ہو کر اس واقعہ کی مذمت کی ، مگر یہ اتحاد تقریباً دو گھنٹے برقرار رہ سکا، جس کے بعد پھر وہی تقسیم چنگھاڑتی ہوئی لوٹ آئی۔ ہر جانب بحث شروع ہو گئی کہ یہ سب ڈراما ہے، خان کو ایک گولی لگی، دو یا چار؟ گولی ایک ٹانگ میں پیوست ہوئی یا دونوں ٹانگیں زخمی ہوئیں؟ پھر یہ بحث شروع ہوگئی کہ خان صاحب کو تو ایک بھی گولی نہیں لگی اور گولی کے ٹکڑے لگے ہیں، جب سوال کیا گیا کہ کیا دنیا میں ایسی بھی کوئی گولی ہوتی ہے جو ٹکرانے کے بعد ٹکڑوں میں تبدیل ہو جائے؟ تو کہا گیا کہ انہیں گولی نہیں بلکہ گولیاں لگنے سے کنٹینر کی چادر کے اڑنے والے ٹکڑے لگے۔ پھر پوچھا گیا کہ اگر خان صاحب کو زخم آئے ہیں تو پلاسٹر کرنے کی کیا ضرورت تھی کیونکہ ایسا تو صرف فریکچر کی صورت میں کیا جاتا ہے۔ چنانچہ ان کی بائیں ٹانگ سے پلاسٹر اتار دیا گیا اور دائیں پر مزید پلاسٹر چڑھا دیا گیا، حالانکہ خان صاحب کو فرسٹ ایڈ دینے والے ریسکیو 1122 کے اہلکار کا کہنا ہے کہ ان کی صرف ایک ٹانگ پر گھٹنے کے نیچے زخم تھا اور دوسری ٹانگ محفوظ رہی۔

حماد غزنوی کا کہنا ہے کہ اس واقعہ میں سب سے زیادہ ناقدری نوید احمد نامی اس شخص کی ہوئی ہے جسے پستول سمیت فائرنگ کرتے ہوئے گرفتار کیا گیا، وجہ یہ ہے کہ خان صاحب تو اسے رتی برابر اہمیت دینے پر تیار نہیں ہیں، یہ نوجوان بظاہر ایک مذہبی جنونی ہے جس نے عمران پر فائرنگ کرنے سے پہلے لبیک یا رسول اللہ کا نعرہ بھی بلند کیا۔ اپنے اقبالی بیان میں نوید احمد نے تسلیم کیا کہ اس حملے میں اس کے علاوہ کوئی اور ملوث نہیں اور وہ عمران کی جانب سے بار بار اپنا موازنہ نبی پاکؐ سے کیے جانے پر نالاں تھا اور اسی لیے ان کا خاتمہ کرنا چاہتا تھا۔ ایک طرح سے نوید احمد کی زندہ گرفتاری اور پھر اقبالی بیان دینے پر پی ٹی آئی کے دوست بے مزہ نظر آتے ہیں۔ ماضی میں ہم سب کو یہی شکایت رہی ہے کہ ایسی وارداتوں میں حملہ آور زندہ پکڑا نہیں جاتا، کیونکہ اصل منصوبہ ساز قاتل کو بھی موقع پر مار دیتے تھے جیسے لیاقت علی خان کے قاتل اکبر خان کو موقعے پر گولی مار دی گئی تھی اور بے نظیر بھٹو کو نشانہ بنانے والے شوٹر کو ایک خودکش بمبار نے اپنے سمیت اڑا دیا تھا۔ لیکن عمران پر حملے کا ملزم اگر پکڑا ہی گیا ہے تو ابھی تک مضروب گروہ کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام نظر آتا ہے، غالباً عمران خان گرفتار شخص کو اپنے بیانیے کی راہ میں رکاوٹ تصور کر رہے ہیں۔

بقول حماد غزنوی، عمران خان تو چاہتے ہیں کہ اپنے سب ’دشمنوں‘ کو اسی ایک مقدمے میں پھنسا دیں، کیا سویلین اور کیا باوردی، ایک ہی وار سے سب کو ٹھکانے لگا دیں۔ اسی لیے اب موصوف نے یہ دھمکی دے ڈالی ہے کہ وہ ایک اور سینئر فوجی افسر کا نام بھی لینے والے ہیں جو ان پر وزیر آباد حملے کی سازش میں شریک تھا۔ لیکن وہ یہ نہیں بتاتے کہ انہیں نوید کے اقبالی بیان پر یقین کیوں نہیں ہے۔خان صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ ’تیغ بازی کا شوق اپنی جگہ، آپ تو قتلِ عام کر رہے ہیں‘۔ اگر پولیس اس طرح بغیر ثبوت مملکت کے قد آور لوگوں پر کیسز بناتی تو خود آپ کے خلاف ایک رات میں پاکستان کے طول و عرض میں درجنوں ایف آئی آرز کٹ چکی ہوتیں۔ اور اگر کوئی سمجھتا ہے کہ گرفتار شخص ’طوطا‘ ہے، یعنی رٹا رٹایا بیان دے رہا ہے تو اس کا بہترین طریقہ بھی یہی ہے کہ اسے عمران خان کے وکیل عدالتوں میں اسے ’میاں مٹھو‘ ثابت کریں۔ اس طرح کی پچھلی وارداتوں میں تو اکثر ہمارے ہاتھ خالی ہوتے تھے، اس بار ایک سرا تو ہے، سو غنیمت ہے۔

حماد کہتے ہیں کہ ان کے ذہن میں ایک اور بات بھی کھٹک رہی تھی، ہم بڑے دن سے سن رہے تھے کہ عمران ہماری ریڈ لائن ہے، تو پھر سوال یہ ہے کہ کیا بنا اس ریڈ لائن کا؟ ریڈ لائن تو کراس ہو گئی؟ چند سو لوگ باہر نکلے اور سڑکوں پر باراتیوں والی لال کرسیاں ڈال کر بیٹھ گئے، تو کیا لال کرسیاں بچھانے سے ریڈ لائن کراس کرنے والوں کو جواب مل گیا؟ کیا عمرانڈوز نے چند سڑکیں بلاک کر کے ریڈ لائن کا حساب برابر کر دیا؟ حماد کہتے ہیں کہ اس سے پہلے یہ بھی کان میں پڑا تھا کہ ارشد شریف ہماری ریڈ لائن ہے۔ کیا بنا اس ریڈ لائن کا؟ وہ بھی بے دردی سے مٹا دی گئی اور سنا ہے اس خونی واردات میں دشمن کی بجائے انکے اپنے دوست ملوث نکلے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور اس کی بیٹی بھی کسی کی ریڈ لائن تھے، کیا ہوا ان ریڈ لائنز کا؟ حماد غزنوی کے بقول بات یہ ہے کہ قبائلی سطح کی دشمنیوں میں کوئی ریڈ لائن نہیں ہوتی، گروہوں میں بٹے ہوئے لوگ کمزور ہوتے ہیں اور کمزوروں کی کوئی ریڈ لائن نہیں ہوتی، یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ کا لیڈر آپکی ریڈ لائن ہو اور آپکا مخالف لیڈر کچی پنسل سے کھنچی ہوئی دھندلی سی لکیر ہو۔ آپ کے مخالفوں پر حملہ ہو تو آپ اسے عوامی جذبات کا اظہار قرار دیں، اور اپنی باری آئے تو ریڈ لائن بتانی شروع کر دیں۔ ہم نے اس ملک میں کسی کی ’ریڈ لائن‘ مٹنے پر مٹھائیاں بٹتے بھی دیکھی ہیں۔ یاد رکھیے، معاشرہ ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اپنی مشترکہ ریڈ لائنز کھینچ سکتا ہے، جس میں آپ کا لیڈر بھی شامل ہو اور آپ کے مخالفین کا بھی۔ لیکن عمران خان کو شاید ابھی تک یہ بات سمجھ نہیں آسکی،’ ’علاج یہ ہے کہ مجبور کر دیا جائوں… وگرنہ یوں تو کسی کی نہیں سنی میں نے‘‘۔

حماد غزنوی کہتے ہیں کہ پاکستان کے سیاسی منظر نامے کو چھوڑیے، یہ تو غالباً ہے ہی اس لئے کہ ہم ظواہر میں کھو جائیں، اصل معاملہ کچھ اور ہے’’کہ فضائے شہر ہے پُر فتن، ہیں عجیب سائے سے گامزن‘‘، اب یہ کوئی راز نہیں ہے کہ یہ جو پردے پر آپ دھینگا مشتی دیکھ رہے ہیں یہ علت نہیں معلول ہے، پسِ پردہ ایک مہا یُدھ برپا ہے جس میں لندھور اور عادی کرب ایک دوسرے کی ناک خاک آلودہ کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں، اس کھیل کے انجام سے ڈر لگتا ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم سب ہار جائیں، بقول جون ایلیا:

خوب ہے شوق کا یہ پہلو بھی
میں بھی برباد ہو گیا تو بھی

Related Articles

Back to top button