پنجاب کے نگرانوں کا بلامعاوضہ نگرانی کافیصلہ

سینئر صحافی اور کالم نگار تنویر قیصر شاہد نے اس امر کو قابل تحسین قرار دیا ہے کہ آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی نگران کابینہ نے اپنے وزیر اعلیٰ کے نقشِ قدم پر چلتے ہُوئے ، رضا کارانہ طور پر ، تنخواہ اور سرکاری گھر لینے سے انکار کر دیا ہے ۔ روزنامہ ایکسپریس کے لئے تحریر کردہ اپنے تازہ کالم میں تنویر قیصر شاہد کہتے ہیں کہ پنجاب کی نگران کابینہ فی الحال’’سیاست زدہ‘‘ ہونے کے الزامات سے محفوظ ہے۔ اور یہ کمال نگران وزیر اعلیٰ پنجاب، محسن نقوی، کا ہے۔ وہ چونکہ خود بھی غیر سیاسی فرد ہیں ، اس لیے انھوں نے کوشش کی ہے کہ اُن کی کیبنٹ بھی غیر سیاسی رہے۔ گویا کہا جا سکتا ہے کہ محسن نقوی کی نگران کابینہ میں اُن کی اپنی شخصیت جھلک رہی ہے۔

مثال کے طور پر عامر میر ۔انھیں اطلاعات اور ثقافت کا قلمدان سونپا گیا ہے۔ عامر میر ایک نامور استاد ، دانشور اور صاحبِ طرز قلمکار باپ، پروفیسر وارث میر، کے معروف صاحبزادے ہیں ۔ عامر میر کی اپنی بھی منفرد پہچان ہے۔وہ وطنِ عزیز کے نامور اخبار نویس ہیں۔ کئی شاندار اور مشہور انگریزی کتابوں کے مصنف بھی۔ عامر میر لبرل اور جمہوری مزاج رکھتے ہیں۔ آمریت کے سخت مخالف رہے ہیں۔ انھوں نے آمر جنرل پرویز مشرف سے ایوارڈ لینے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ عمران خان کے دَورِ وزارتِ عظمیٰ میں انھیں ایف آئی اے نے حراست میں بھی لیا تھا۔وہ پاکستان کے اُن معدودے چند اخبار نویسوں میں شامل سمجھے جاتے ہیں جن پر محترمہ بے نظیر بھٹو بے حد اعتماد اور اعتبار کرتی تھیں ، مگر عامر میر نے خود پر کبھی ’’پپلیا‘‘ ہونے کی مہر ثبت نہ ہونے دی۔پرنٹ اینڈ الیکٹرانک میڈیا کی باریکیوں اور اسرارورموز سے آگاہی رکھنے والے ایسے تجربہ کار اور غیر جانبدار صحافی، عامر میر، کو اطلاعات اور کلچر کی وزارت دے کر ایک مستحسن اور بجا اقدام کیا گیا ہے۔

تنویر قیصر شاہد کہتے ہیں کہ ڈاکٹر جمال ناصر بھی نگران وزیر اعلیٰ پنجاب کا اچھا انتخاب ہیں ۔ پنجاب کی نگران کابینہ میں انھیں پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر کا قلمدان تفویض کیا گیا ہے۔ جمال ناصر چونکہ خود بھی ایک ماہر اور معروف ڈاکٹر ہیں، اس لیے ’’جس کا کام ، اُسی کو ساجھے‘‘ کے مصداق، انھیں مذکورہ وزارت دے کر محسن نقوی نے اُصولی فیصلہ کیا ہے۔تنویر قیصر شاہد بتاتے ہیں کہ ڈاکٹر جمال ناصر راولپنڈی/اسلام آباد سے تعلق رکھتے ہیں۔ جڑواں شہروں میں اُن کا میڈیکل بزنس بھی ہے۔ وہ دونوں شہروں کی ڈاکٹرز کمیونٹی اور اخبار نویسوں میں یکساں مقبول و محبوب ہیں ۔ اُن کے ایک بھائی نامور جج بھی رہے ہیں۔اُن کے والدین تحریکِ پاکستان کے نمایاں کارکن اور مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناح ؒکے معتمد ساتھی تھے۔ یوں اُن کا بطور نگران وزیر انتخاب اس لیے بھی اچھا اور معقول ہے کہ ڈاکٹر جمال ناصر کی رگوں میں تحریکِ پاکستان کی خدمت و محبت کا خون دوڑتا ہے۔ ڈاکٹر جمال ناصر بہت اچھے مقرر بھی ہیں۔

تنویر قیصر شاہد کہتے ہیں کہ ڈاکٹر جاوید اکرم  بھی شاندار انتخاب ہیں۔ انھیں نگران کابینہ میں اسپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن کا محکمہ دیا گیا ہے۔ڈاکٹر جاوید اکرم محکمہ صحت کو اندر باہر سے خوب جانتے ہیں۔ وہ اسپتال انتظامیہ سائنس سے بھی بخوبی واقف ہیں۔ تنویر قیصر شاہد پنجاب اور خیبر پختوں خواہ کی نگران حکومتوں میں فرق بیان کرتے ہوۓ بتاتے ہیں کہ خیبر پختونخوا کی اسمبلی جونہی تحلیل ہوئی ، وزیر اعلیٰ محمود خان اور اپوزیشن لیڈر اکرم درانی نے کوئی وقت ضائع کیے اور جھگڑوں میں پڑے بغیر نگران وزیر اعلیٰ، محمداعظم خان ، پر اتفاق کر لیا جو سابق بیورو کریٹ ہیں۔

پنجاب میں مگر صورتحال اِس کے بالکل برعکس رہی۔ پنجاب اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی اور اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز کسی شخص پر اتفاق نہ کر سکے ۔ اور یوں یہ قضیہ ایک اور درمیانی مرحلہ طے کرکے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس پہنچا۔ وہاں سے متفقہ فیصلہ آیا کہ  محسن رضا نقوی پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ مقرر کیے گئے ہیں۔تنویر قیصر شاہد کے مطابق پنجاب کی اکثر سیاسی جماعتوں نے محسن نقوی کو بطورِ نگران وزیر اعلیٰ دل و جان سے قبول کیا ہے کہ محسن نقوی معتدل بھی ہیں، اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی اور کسی سیاسی جماعت سے کبھی تعلق بھی نہ رکھا۔ ایک نمایاں کوالیفکیشن اُن کی یہ بھی ہے کہ تقریباً سبھی سیاسی جماعتوں کے قائدین سے اُن کے دوستانہ تعلقات ہیں۔تنویر قیصر کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی ، عمران خان اور چوہدری پرویز الٰہی مگر  محسن نقوی کو نگران وزیر اعلیٰ ماننے اور تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ وہ محسن نقوی کی تعیناتی کی مخالفت کر رہے ہیں۔ عمران خان اِس مخالفت میں یہاں تک چلے گئے ہیں کہ الزام عائد کر دیا کہ ’’میری حکومت کے خاتمے میں محسن نقوی نے مرکزی کردار ادا کیا۔‘‘ وہ اِسی پر ہی نہیں رُکے ، عمران خان کے حکم پر 27جنوری کو پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں  محسن نقوی کی بطورِ وزیر اعلیٰ پنجاب تعیناتی چیلنج کر دی۔

تنویر قیصر شاہد کے مطابق دونوں نگران کابینہ میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ خیبر پختونخوا کی نگران کابینہ پر ’’الزام ‘‘ لگ رہا ہے کہ یہ سیاسی بنیادوں پر بنائی گئی ہے۔ کے پی کے نگران کابینہ پر ایک نظر ڈالی جائے تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ اِس میں پیپلز پارٹی، نون لیگ، اے این پی، جمہوری وطن پارٹی اورجے یو آئی ایف کے لوگ شامل ہیں۔یہ نمایاں افراد اپنی اپنی سیاسی وابستگیاں چھپا بھی نہیں رہے۔ بعض وزیر موجودہ نگران وزیر اعلیٰ،محمد اعظم خان ، کے قریبی رشتے دار بھی بتائے جاتے ہیں۔ مبینہ طور پر کے پی کے کی نگران کابینہ کے کچھ ارکان تو’’ارب پتی‘‘ ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی نگران حکومتیں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مقرر کردہ دائرہ اختیار میں رہتے ہوۓ اپنے اپنے صوبوں میں عوام کو ریلیف دینے اور انتخابات کے پر امن انعقاد میں کس حد تک کامیاب ہوتی ہیں۔

Related Articles

Back to top button