پٹرول 30، بجلی 7 روپے مہنگی ہوئی تو عوام کیا کریں گے ؟

پٹرول کی قیمت میں تیس روپے اور بجلی کی قیمت میں سات روپے کے ممکنہ اضافے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر دس سال کے کم ترین سطح پر پہنچنے کی خبروں نے عوام کو خوف و ہراس کاشکار کر دیا ہے اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ پہلے سے مشکل سے گذرنے والی زندگی میں انہیں اب اور کیا کیا مصائب جھیلنا ہوں گے ، عوام کے ذہنوں پر بجلی بن کر گرنے والی یہ خبریں آئی ایم ایف کی تین رکنی ٹیم کے دورہ پاکستان کے موقع پر سامنے آرہی ہیں ، جس نے پاکستان کو قرض کی قسط جاری کرنے کے لئے سخت ترین شرائط تجویز کی ہیں
آئی ایم ایف کی ٹیم نے تیسرے روز بھی پاکستانی حکام کے ساتھ تکنیکی سطح کے مذاکرات جاری رکھے اور تیسرے روز پاور سیکٹر‘ایف بی آر کےٹیکس ریونیواور مالیاتی شعبے سے متعلق امورکوزیرغور لایا گیا ،آئی ایم ایف نے پاکستانی حکام کو ٹیکس ریونیواور نان ٹیکس ریونیو کے حوالے سے پائیدار ، موثراور خاطر خواہ اقدامات کرنے کا کہا ہےتاکہ رواں مالی سال کےلیے 600ارب روپے کے ٹیکس ریونیو میں فرق کو پورا کیا جاسکے، آئی ایم ایف نے پاکستان کو ٹیکس ریونیو ہدف میں اضافے کا بھی کہا ہے۔حکومت پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کی موجودہ زیادہ سے زیادہ حد 50روپے فی لٹر میں 20سے 30روپے فی لٹر اضافے کے ساتھ اس کو 70سے 80روپے فی لٹر کرنے اور پیٹرولیم مصنوعات پر 17فیصد جی ایس ٹی عائد کرنے کا بھی ارادہ رکھتی ہےتاکہ پیٹرولیم لیوی کے ہدف کو حاصل کیاجاسکے۔
ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف ایک مرتبہ مالیاتی فریم ورک کو حتمی شکل دینے کی صورت میں سیلاب کے اخراجات کو ایڈجسٹ کرنے کےلیے تیار ہے، تاہم اس کاانحصار اس بات پر ہےکہ سیلاب کے حوالے سے ترقیاتی اور غیر ترقیاتی اخراجات پر کس قدر رقم خرچ ہوتی ہےخاص طور پر بی آئی ایس پی پروگرام کےذریعےآنیوالے اخراجات ، ایف بی آر کی ٹیم نے آئی ایم ایف حکام کو یقین دہانی کرائی ہےکہ وہ اس سال کا ریونیو ہدف 7470ارب روپے حاصل کر لیں گے، ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف نے پاور سیکٹر کے حوالے سے بجلی کی سرکاری تقسیم کار کمپنیوں کی کارکردگی پر عدم اعتماد کا اظہار کیا اور ڈسکوز کے 100 فیصد بل وصولی میں ناکامی پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے جبکہ رواں مالی سال کے سات ماہ میں ٹیکس ریونیو کے ہدف میں 220ارب روپے کے شارٹ فال پر بھی تحفظات کا اظہار کیا اور اس بات پر زور دیا کہ پاکستان رواں مالی سال کا 7470ارب روپے کا ٹیکس ریونیو کا ہدف حاصل کرے اور ٹیکس بیس میں اضافے کےلیے اضافی اقدامات کیے جائیں ۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کا مؤقف ہے حکومت بجلی کی تقسیم کارکمپنیوں کی کارکردگی بہتر بنائے بغیر گردشی قرضے کا خاتمہ ممکن نہیں۔ 100 فیصد بل وصولی کے بغیر پاور سیکٹر کا گردشی قرض ختم نہیں ہو سکتا۔ ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف نے 3 ڈسکوز کے علاوہ دیگر تمام ڈسکوز کی کارکردگی کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے حکومت پاکستان کو ڈسکوز کی طرف سے بجلی بل وصولی یقینی بنانے کا مطالبہ کیا ہے، آئی ایم ایف نے گردشی قرض مینجمنٹ پلان کے اہداف، بجلی ٹیرف میں سبسڈی ختم کرنے اور صنعتی شعبے کی ٹیرف سبسڈی کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے ۔آئی ایم ایف نے سرکاری افسران کے اثاثے پبلک کرنے کے لئے اتھارٹی کے قیام کا مطالبہ کر دیا۔ ذرائع ایف بی آر کے مطابق آئی ایم ایف نے بیورکریسی کے بیرون ملک اثاثوں کی تفصیلات مانگ لیں، بیوروکریسی کے بیرون ملک منقولہ اور غیرمنقولہ اثاثے پبلک کرنے کا مطالبہ سامنے رکھا گیا ہے، شفافیت اور احتساب کے لئے الیکٹرانک ایسٹ ڈیکلریشن سسٹم قائم کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔
مزید برآں بینک میں اکائونٹس کھلوانے سے پہلے بیورکریسی کے اثاثے چیک کیے جائیں گے، بیوروکریسی کے اکائونٹس کھولنے کے لئے بینک ایف بی آر سے معلومات لے سکیں گے، بینک اکائونٹس کھولنے کے لئے 17 سے 22 گریڈ کے افسران کو تمام معلومات دینا ہوں گی ،معاشی امور کی رپورٹنگ کرنے والے صحافی مہتاب حیدر کا کہنا ہے کہ گردشی قرضہ لگ بھگ 2.5ٹریلین ہوچکا ہے، حکومتی پلان کے مطابق اس سال گردشی قرضے میں 952ارب روپے کا اضافہ ہونا ہے، حکومت کو بجلی کی قیمتوں میں 7روپے فی یونٹ مزید اضافہ کرنا ہے، حکومت 300یونٹ والوں کا تحفظ کرتی ہے تو کمرشل یونٹس میں نمایاں اضافہ کرنا پڑے گا۔
دوسری طرف بتایا گیا ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا تسلسل برقرار‘10 سال کی کم ترین سطح پر آ گئے ‘ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 59 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کی کمی سے 8 ارب 74 کروڑ 17 لاکھ ڈالر رہ گئے ‘ اسٹیٹ بینک کے مطابق 27جنوری کو ختم ہونے والے ہفتے کے اختتام پر غیر ملکی ادائیگیوں کے باعث زرمبالہ کے مجموعی ذخائر مزید کم ہوگئے ہیں‘اب اسٹیٹ بینک کے پاس 3ارب 8 کروڑ 62 لاکھ ڈالر اور کمرشل بینکوں کے پاس 5ارب 65 کروڑ 55 لاکھ ڈالر ہیں ، اس ساری صورت حال میں عام پاکستانی یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ حکومت ان کی مخالف جماعت کی ہو یا ان کے محبوب لیڈروں کی اشرفیہ کی مراعات تو کم نہیں ہوتیں مگر عوام کی کھال کھینچنے سے کوئی حکمران نہیں ہچکچاتا۔