پیپلز پارٹی پنجاب کے عہدیدار اسپیکر اور گورنر کیوں بنائے گئے؟


آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کی جانب سے پیپلز پارٹی وسطی پنجاب کے صدر راجہ پرویز اشرف کو اسپیکر قومی اسمبلی اور پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب کے صدر مخدوم احمد محمود کو گورنر پنجاب بنانے کا مقصد صوبہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کو اگلے انتخابات سے پہلے مضبوط بنانا ہے۔ حالانکہ اخلاقی اور قانونی طور پر پرویز اشرف اور احمد محمود سپیکر اور گورنر بننے کے بعد پارٹی عہدے نہیں رکھ سکتے لیکن اس کے باوجود وسطی اور جنوبی پنجاب میں ان کا بنایا ہوا نیٹ ورک ان کی زیر نگرانی کام کرتا رہے گا۔
خیال رہے کہ پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف بلامقابلہ سپیکر قومی اسمبلی منتخب ہو گئے ہیں کیونکہ انکے مقابلے میں اور کسی نے کاغذات نامزدگی جمع نہیں کروائے تھے۔ یوں پیپلزپارٹی کے رہنما حکمران اتحاد کے مشترکہ امیدوار کے طور پر بلامقابلہ سپیکر قومی اسمبلی منتخب ہو گئے ہیں۔
راجہ پرویز اشرف کے تجویز اور تائید کنندہ خورشید شاہ اور نوید قمر تھے۔ راجا پرویز اشرف سے پہلے ان کے تجویز اور تائید کنندگان دونوں رہنماؤں کا نام سپیکر کے عہدے کے لیے زیر بحث تھا لیکن پھر قرعہ فال راجہ پرویز اشرف کے نام نکل آیا۔
راجہ پرویز اشرف کے منتخب ہونے کے بعد 16 اپریل کو قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کر لیا گیا ہے، جہاں ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہو گی۔ ڈپٹی سپیکر کا عہدہ جمعیت علماء اسلام کو دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ قائم مقام سپیکر قاسم سوری نے 16 اپریل کو بلائے گئے اجلاس کا شیڈول تبدیل کر دیا تھا اور اسے 22 اپریل پر لے گے تھے، تاہم سپیکر قومی اسمبلی کے الیکشن کے لیے شیڈول تبدیل نہیں ہوا، جس کے مطابق آج کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا آخری دن تھا۔ چنانچہ اب حکمران اتحاد کو 22 اپریل تک انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ حکمران اتحاد کے لیے سپیکر کی سیٹ اس لیے بھی اہمیت کی حامل ہے کہ پی ٹی آئی ارکان نے قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہوا ہے اور سپیکر یا ڈپٹی سپیکر ہی ان کے استعفوں کی تصدیق کا عمل مکمل کر سکتا ہے۔ دوسری جانب قاسم سوری کا اصرار ہے کہ انہوں نے بطور قائم مقام سپیکر 123 اراکین قومی اسمبلی کے استعفے قبول کر لیے ہیں اور اب الیکشن کمیشن نے انہیں ڈی نوٹیفائی کرنا ہے۔ لیکن اس دوران ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ پی ٹی آئی کے درجنوں اراکین قومی اسمبلی مستعفی نہیں ہونا چاہتے لہذا نیا اسپیکر اس حوالے سے انکے لیے مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
خیال رہے 9 اپریل کو قومی اسمبلی میں اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ سے قبل تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے عہدہ چھوڑنے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد یہ نشست خالی تھی۔
عمران خان کے قریبی ساتھی اسد قیصر نے بطور سپیکر جانبداری کی ایک نئی تاریخ رقم کی تھی اور وہ پونے چار برس تک عمران خان کے ذاتی ملازم کا کردار ادا کرتے رہے۔
راجہ پرویز اشرف راولپنڈی سے پیپلز پارٹی کے پرانے کارکن ہیں۔ وہ جون 2012  میں تب وزیراعظم منتخب ہو گئے تھے جب ان کی پارٹی کے ہی یوسف رضا گیلانی کو سپریم کورٹ نے سوئس حکومت کو خط نہ لکھنے پر وزیراعظم کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ اس سے قبل وہ یوسف رضا گیلانی کی کابینہ میں وفاقی وزیر پانی و بجلی بھی رہ چکے تھے اور اپوزیشن انہیں راجہ رینٹل کے نام سے پکارتی تھی۔ اپنی وزارت اور وزارت عظمیٰ کے دور کے حوالے سے ان پر کرپشن کے الزامات بھی لگے اور نیب کیسز بھی بنے جس میں رینٹل پاور اور اوگرا کیس شامل ہیں۔ تاہم یہ کیسز بعد میں جھوٹے ثابت ہوئے اور راجہ پرویز عدالتوں سے بری ہو گئے۔
بنیادی طور پر راولپنڈی کی تحصیل گوجر خان کے علاقے مندرہ سے تعلق رکھنے والے راجہ پرویز کا خاندان نہری نظام متعارف ہونے پر سندھ منتقل ہوا تھا۔ ان ہی دنوں وہ 1954 میں سانگھڑ میں پیدا ہوئے۔ 1970 میں سندھ یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے کے بعد راجہ پرویز گجر خان منتقل ہوگئے اور یہیں سے انہوں نے سیاست میں پہلا قدم رکھا۔ ان کے چچا صدر ایوب خان کی کابینہ میں وزیر رہ چکے ہیں۔ ابتدا میں راجہ پرویز اشرف نے جوتوں کا کارخانہ قائم کیا لیکن بعد میں پراپرٹی کے کاروبار سے منسلک ہوگئے۔
راولپنڈی میں پیپلز پارٹی کی سیاست کے حوالے سے وہ 1988 سے انتہائی اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ انیس سو نوے، ترانوے اور ستانوئے کے عام انتخابات میں انہیں مسلم لیگ اور جماعت اسلامی کے مشترکہ امیدواروں کے ہاتھوں شکست ہوئی۔ قومی سیاست کے منظرِ عام پر وہ پہلی مرتبہ 2002 کے انتخابات میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 51 سے سے کامیابی کے بعد قومی اسمبلی میں آئے۔ اسی حلقے سے وہ 2008 کے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے دوبارہ ایوان میں پہنچے۔ 31 مارچ 2008 کو وزيراعظم يوسف رضا گيلانی کی کابينہ ميں انہیں پانی و بجلی کا وفاقی وزير بنايا گيا۔ اس عہدے پر وہ 9 فروری 2011 تک فائز رہے۔
جہاں تک پنجاب کے نامزد گورنر مخدوم سید احمد محمود کا تعلق ہے تو وہ ماضی میں بھی پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں گورنر پنجاب کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں۔ احمد محمود 1961 میں کراچی میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ضلع رحیم یار خان سے ہے۔ ان کے دادا مخدوم الملک سید غلام میراں شاہ ریاست بہالپور میں اہم عہدوں پر فائز رہے۔ ان کے والد مخدوم سید حسن محمود 1985 میں نواز شریف کے دور میں اپوزیشن لیڈر رہے۔ ان کی وفات کے بعد سید احمد محمود پہلی مرتبہ 1986 اور پھر دوبارہ 1988 سے لیکر 1990 تک پنجاب اسمبلی کے رکن اور وزیر ایکسائز بنے جبکہ 1990 سے لیکر 1993، 1996 اور 1999 تین مرتبہ رکن قومی اسمبلی رہے۔ وہ ایک مرتبہ چیئرمین ضلع کونسل اور 2001 سے لیکر 2005 تک ضلع ناظم رحیم یار خان بھی رہے۔ انہوں نے کچھ دیر وزیر مملکت کے طورپر بھی خدمات انجام دیں۔ مخدوم سید احمد محمود کے دو صاحبزادے مخدوم مرتضیٰ رکن قومی اسمبلی اور دوسرے مخدوم مصطفیٰ محمود رکن صوبائی اسمبلی ہیں۔ سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی اور پیر صاحب پگارا ان کے قریبی عزیزوں میں سے ہیں۔ خدوم سید احمد محمود پیشے کے اعتبار سے کسان اور صنعت کار ہیں۔

Related Articles

Back to top button