چھپکلیوں سے ڈرنے والےعمران کی جیل بھرو تحریک‘ کا کیا بنے گا؟  

 بند گلی سے نکلنے اور خود کو سیاسی موت سے بچانے کی تمام تدابیر ناکام ہونے کے بعد اب عمران خان نے ملک میں جیل بھرو تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا ہے تاہم دوسری عمران خان کی کال پر وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ چھپکلیوں سے ڈرنے والے عمران کی کسی بات اور کسی کال سے انھیں کوئی خطرہ نہیں، عمران جیل بھرو تحریک شروع کرے اس کی ہم اس کی 25 مئی کی طرح حواریوں سمیت جیلوں میں اچھی "تواضع” کرینگے۔

اردو نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق جیل بھرو تحریک بنیادی طور پر احتجاج کا ایک طریقہ ہے جس میں لوگ اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے رضاکارانہ طور پر گرفتاری دیتے ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگ جیلوں میں جمع ہو جائیں کہ ریاست کے لیے ان کا انتظام سنبھالنا مشکل ہو جائے۔ لیکن تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ماضی میں عملی طور پر جیلیں بھرنے کی کوئی کوشش بھی کامیاب نہیں ہو سکی۔

سینئر تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی نے کہا کہ ’برصغیر میں جیل بھرو تحریک کی روایت موجود بھی ہے اور یہ تحریکیں چلتی بھی رہی ہیں، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ ریاست کے بنائے قوانین کی خلاف ورزی کریں اور ایسا جرم کریں جس سے قانون کی نظر میں آپ کی گرفتاری لازمی ہو۔ ایسا نہیں ہے کہ آپ تھانے یا جیل جائیں اور کہیں کہ مجھے جیل جانا ہے اور پولیس آپ کو جیل بھیج دے گی۔

برصغیر کی تاریخ میں جیل بھرو تحریک اور اس کے ساتھ ہی سول نافرمانی تحریک کا موجد انڈین نیشنل کانگریس کے رہنما موہن داس گاندھی کو سمجھا جاتا ہے۔ متحدہ ہندوستان میں اس تحریک کو ’ہندوستان چھوڑو تحریک‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

اس تحریک کو ناکام بنانے اور اپنے قبضے کو نیا جواز دینے کے لیے سر سٹیفورڈ کرپس کی سربراہی میں انگریزوں نے ’کرپس مشن‘ انڈیا بھیجا جس نے قائد اعظم محمد علی جناح، مون داس گاندھی، جواہر لعل نہرو سمیت دیگر سیاسی رہنماؤں سے ملاقاتیں کر کے انگریزوں کے انخلا اور انڈیا کو دولت مشترکہ کی ایک ریاست بنانے کی تجویز دی۔ تمام رہنماؤں نے کرپس مشن کی تجاویز کو مسترد کر دیا۔

اس مشن کی ناکامی کے بعد انگریز سرکار نے گاندھی سمیت انڈین نیشنل کانگریس کی تمام قیادت اور رہنماؤں کو گرفتار کر لیا۔ کانگریس کے کچھ رہنما بھی اس کی مخالفت کر رہے تھے تو دوسری جانب انگریز سرکار بھی اسے کچلنے کے لیے تیار بیٹھی تھی۔ اس تحریک میں 60 ہزار سے زائد افراد گرفتار ہوئے جن میں سے اکثریت بغیر کسی مقدمے کے تقسیم ہند تک قید رہی۔ یوں یہ تحریک فوری طور پر اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی۔

مجیب الرحمان شامی کہتے ہیں کہ چونکہ یہ تحریک اس وقت کی آزادی کی تحریک کا ایک حصہ تھی اس لیے اسے کچلے جانے کے باوجود اس نے لوگوں کو شعور دینے اور ان میں نیا جذبہ بھرنے میں کردار ادا کیا تھا۔

سیاسی امور کے ماہر رسول بخش رئیس نے کہا کہ ’جیل بھرو تحریک کی ایک تاریخ ہے کہ جب یہاں پر آزادی کی تحریک چل رہی تھی تو مہاتما گاندھی کی قیادت میں یہ تحریک شروع کی گئی تھی جس کا مقصد انگریزوں کو ہندوستان سے واپس بھیجنا تھا۔ اس تحریک سے برطانیہ واپس نہیں گیا تھا اور نہ ہی ان کی حکومت کو کوئی فرق پڑا تھا۔ تاہم اس تحریک میں آزادی کے لیے قومی سطح پر آزادی کا جذبہ پیدا کرنے میں مدد ملی ہے۔

ماضی قریب یعنی 2011 میں انڈیا میں کرپشن کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے والے انا ہزارے نے لوک پال بل میں اپنی تجاویز شامل کرانے کے لیے جیل بھرو تحریک کا اعلان کیا تھا۔ حکومت نے ان کی تجاویز مانتے ہوئے اسے بل کا حصہ بنا لیا تھا جس وجہ سے انہوں نے اپنا اعلان واپس لے لیا تھا۔

پاکستان میں باضابطہ طور پر ایک ہی جیل بھرو تحریک کا آثار ملتے ہیں جو ضیاءالحق کے خلاف بننے والے سیاسی جماعتوں کے اتحاد ایم آر ڈی یعنی تحریک بحالی جمہوریت نے شروع کی تھی۔اس بحالی جمہوریت تحریک کے بنیادی مطالبات میں ضیاء الحق کا استعفیٰ، آئین کی بحالی، سیاسی اسیروں کی رہائی اور فوجی عدالتوں کے ذریعے دی گئی سزاوں کی منسوخی شامل تھی۔ ایم آر ڈی نے اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے جیل بھرو تحریک کا آغاز کیا تو بیگم نصرت بھٹو نے لاہور میں گرفتاری پیش کی۔ انہیں بعد ازاں کراچی منتقل کر دیا گیا جبکہ بے نظیر بھٹو کے پنجاب میں داخلے پرپابندی عائد کر دی گئی۔

اس دوران الذولفقار نامی تنظیم نے کراچی سے پشاور جانے والا پی آئی اے کا طیارہ اغوا کر لیا۔ جسے پہلے کابل اور بعد ازاں دمشق لے جایا گیا۔ طیارے میں 146 مسافر سوار تھے جن کی جان کے بدلے میں 55 سیاسی اسیروں کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا۔

ہائی جیکروں نے طیارے میں سوار میجر طارق رحیم کو قتل کر کے لاش طیارے سے باہر پھینک دی۔ ضیاء حکومت نے اس واقعے کی بنیاد پر پیپلز پارٹی کے خلاف وہ کارروائیاں کیں کہ اس کے کارکنان کو جیلوں میں ڈالا گیا، کچھ کو پھانسیاں دی گئیں۔ جس وجہ سے ایم آر ڈی کی یہ تحریک دم توڑ گئی۔

تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی کا کہنا ہے کہ ’جنگ آزادی اور سیاسی تحریکوں میں یہی ایک فرق ہے کہ ایسی تحریکیں ملک کی آزادی کے لیے کامیاب نہ بھی ہوں تب بھی لوگوں میں بیداری اور شعور پیدا کر دیتی ہیں، لیکن سیاسی تحریکوں میں جیل بھرو تحریک جیسے اقدامات کو کامیابی نہیں ملتی۔

ان کے مطابق اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایسی تحریکوں میں اجتماعی طور پر ریاستی قوانین کی خلاف ورزی کرنا پڑتی ہے تاکہ ریاست آپ کے خلاف ایکشن لینے پر مجبور ہو جائے۔ اگر ریاست ایکشن نہیں لیتی تو اس کی رٹ ختم ہو جاتی ہے جیسے بھٹو دور میں ہوا کہ رٹ ختم ہوئی اور فوج نے اقتدار پر قبضہ کیا۔ اور اگر ایکشن لیتی ہے تو پھر اسے بڑے پیمانے پر لوگوں کو گرفتار کرنا پڑتا ہے۔

تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان کی جیل بھرو تحریک کامیاب ہو گی یا ماضی کی طرح ناکامی سے دوچار ہو گی؟  دیکھا جائے تو یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ عمران خان کی جانب سے ایسی کسی تحریک کال دی گئی ہو۔ اکتوبر 2022 میں میانوالی میں ایک جلسے سے خطاب میں انہوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ جلد ہی جیل بھرو تحریک کال دیں گے۔اس سے قبل 2014 کے دھرنے کے ابتدائی دنوں میں عمران خان نے سٹیج پر کھڑے ہوکر بجلی کا بل جلاتے ہوئے سول نافرمانی کی تحریک چلانے کا اعلان کیا تھا۔

انہوں نے عوام سے اپیل کی تھی کہ وہ بجلی اور گیس کے بل نہ دیں اور ٹیکس بھی نہ دیں جبکہ بیرون ملک مقیم پاکستان حوالہ ہنڈی کے ذریعے رقوم بھیجیں۔ اس اعلان کے نتیجے میں عوام کی جانب سے ردعمل نہ ہونے کے برابر تھا، جبکہ عمران خان کا بجلی کا کنکشن کاٹ دیا گیا تھا جو کچھ عرصے بعد بل کی ادائیگی کرنے پر بحال کر دیا گیا تھا۔ یوں ان کی یہ تحریک ناکامی کا شکار ہوئی تھی۔ان کی اس سول نافرمانی کی تحریک کو ان کے مخالفین آج بھی ان پر طنز کرتے ہیں۔ اب جب وہ جیل بھرو تحریک کا اعلان کرنے والے ہیں تو تجزیہ کار مجب الرحمان شامی کہتے ہیں کہ ایسی تحریکیں ماضی میں کامیاب نہیں ہوئیں تو اب بھی اس کی کامیابی کے امکانات نہیں ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’تحریک آزادی کے وقت اور ضیاء دور میں جو لوگ بھی جیلوں میں گئے انھوں نے اعلانیہ ریاست کے جبری قوانین کو ماننے سے انکار کیا۔ مارشل لاء نے جلسے جلوسوں سے منع کیا تو لوگ باہر نکلے جنہیں قید کر دیا گیا۔ گاندھی اور ان کے پیروکاروں نے انگریز کے جابرانہ قوانین کو ماننے سے انکار کیا۔ اس وجہ سے ان کو جیلوں میں بند کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ’اب بظاہر عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے سامنے ایسا کوئی قانون نہیں ہے جسے توڑنے پر وہ گرفتاری کے حقدار بن جائیں اور جیلیں بھر دیں۔ عمران خان اور ان کے ہزاروں ساتھیوں کا ایسے جرائم کا ارتکاب کرنا ہوگا جو ضابطہ فوجداری کے تحت قابل دست اندازی پولیس ہوں۔ جو بظاہر ممکن نظر نہیں آتا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’اگر عمران خان اور کچھ دیگر رہنما اپنے اوپر درج مقدمات میں ضمانتوں کی درخواستیں واپس بھی لے لیں تو یہ انفرادی عمل ہو گا، جبکہ جیل بھرو تحریک کے لیے کم از کم ہزاروں افراد کی ضرورت ہو گی، تجزیہ کار رسول بخش رئیس کہتے ہیں کہ ’عمران خان پاکستانی سیاست میں ایسا کردار ہے جو ہمہ وقت اپنے مخالفین کو مصروف رکھنے کی کامیاب حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔

انہوں نے کہا کہ گاندھی کی تحریک سے انگریز سرکار ختم نہیں ہوئی تھی اور عمران خان کی تحریک سے موجودہ حکومت بھی نہیں گرے گی۔ عمران خان کا واحد مقصد اپنے لوگوں کو متحرک رکھنا ہے تاکہ ملک میں جب بھی انتخابات ہوں اس کا ورکر ان کے لیے تیار ہو اس لیے جیل بھرو تحریک کا ان کا اعلان موبلائزیشن سے زیادہ نہیں ہے اور وہ اپنے اس مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

Related Articles

Back to top button