چین کا سی پیک منصوبوں میں مزید سرمایہ لگانے سے انکار


باخبر حکومتی ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ چین نے سی پیک منصوبوں میں مزید سرمایہ کاری کرنے سے انکار کر دیا ہے جس کی وجہ سے پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے التوا میں پڑھتے جا رہے ہیں۔ چینی حکام کا موقف ہے کہ سی پیک پر مزید کام کرنے کا مطلب مزید سرمایہ کاری کرنا ہے لہذا چین مزید سرمایہ لگانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ یہ وہی چین ہے جس نے سی پیک منصوبہ فائنل کرتے وقت یقین دہانی کروائی تھی کہ بہت جلد گوادر بھی دبئی اور سنگاپور جیسا ماڈرن اور ترقی یافتہ شہر بن جائے گا۔ لیکن دوسری جانب چینی حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان سی پیک کے منصوبوں پر کام کرنے والے چینی شہریوں کو جان کا تحفظ دینے میں بری طرح ناکام رہا ہے جس کے باعث چین سے لوگ یہاں آنے اور کام کرنے سے کترا رہے ہیں لہٰذا سی پیک منصوبوں کی رفتار سست ہو گئی ہے۔

پاکستان اور چین کے درمیان بظاہر کشیدگی کے حوالے سے ذرائع نے بتایا کہ اصل مسئلہ سی پیک معاہدوں کا ہے۔ سی پیک کے پہلے مرحلے میں انرجی پراجیکٹس مکمل کرنے تھے اور دوسرے مرحلے میں اکنامک زونز بنائے جانے تھے۔ لیکن انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز کو بروقت ادائیگیاں نہ ہونے کی وجہ سے کوئی بھی منصوبہ تیز رفتاری سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ بتایا جا رہا ہے کہ پاکستان کی کمزور معاشی صورت حال کے باعث چین کو ادائیگیاں نہیں ہو رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں چینی صدر شی جی پنگ نے براہ راست وزیراعظم شہباز شریف سے مطالبہ کیا ہے کہ چینی سرمایہ کاروں کو قانونی تحفظ دیا جائے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’چین اور پاکستان کے درمیان ہیڈ آف سٹیٹس کے لیول پر کبھی ایسا مطالبہ نہیں کیا گیا بلکہ یہ معاملات سٹاف لیول پر ہی ڈسکس کیے جاتے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چین پاکستان کے ساتھ کمفرٹیبل نہیں ہے اور وہ سی پیک میں مزید سرمایہ کاری کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔‘

یاد رہے کہ 2015 میں پاکستان سے بجلی بحران ختم کرنے کے لیے چینی پاور کمپنیوں کے ساتھ معاہدے کیے گئے تھے، جن کے مطابق ان کمپنیوں کو منافع کی گارنٹی دی گئی تھی۔ کپیسٹی پیمنٹ کی مد میں بجلی پیدا کریں یا نہ کریں حکومت پاکستان کو انہیں ادائیگیاں کرنا ہوں گی۔ 2017 تک کپیسٹی پیمنٹ کی مد میں تقریباً 255 ارب روپوں کی ادائیگی کی گئی اور 2022 میں یہ رقم 1200 ارب روپے تک بڑھ گئی ہے، جس میں سے تقریباً 35 فیصد چینی کمپنیوں کو واجب الادا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق 2025 تک یہ رقم 3600 ارب روپوں تک بڑھ سکتی ہے، جس کی ادائیگی پاکستان کے لیے تقریباً ناممکن ہے۔ ان حالات کے پیش نظر چین سی پیک میں مزید سرمایہ کاری کرنے سے گریزاں ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسکے علاوہ پاکستان کی موجودہ سیاسی صورت حال بھی سی پیک منصوبوں کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ انکے مطابق حکومتوں کے تبدیل ہونے اور لانگ مارچ، دھرنوں کے نام پر ملک میں بے یقینی کی صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔

معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چینی سرمایہ کاروں کے پاس سرمایہ لگانے کے لیے پوری دنیا ہے۔ پھر وہ سیاسی عدم استحکام کے شکار ملک میں اپنا پیسہ کیونکر لگائیں گے؟ اگر اہل اقتدار سی پیک کی تکمیل میں دلچسپی رکھتے ہیں تو تمام سیاسی پارٹیوں کو ایک پیج پر لانا ہو گا۔‘ معروف ماہر معاشیات ڈاکٹر اشفاق حسن کا کہنا ہے کہ سی پیک پر کام پہلے ہی سست روی کا شکار تھا اور اب تو بالکل ہی بند ہو گیا ہے۔انکے مطابق چین پاکستان سے پیچھے ہٹتا دکھائی دے رہا ہے جبکہ چین کو مشکل وقت میں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے تھا۔ چینی صدر کا پاکستانی وزیراعظم سے بجلی کی ادائیگیوں اور سکیورٹی ایشوز پر بات کرنا پریشان کن صورت حال کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

لیکن ڈاکٹر اشفاق حسن کہتے ہیں کہ چین کو بھی سمجھنا چاہیے کہ پاکستان چین کے لیے اس سے زیادہ سکیورٹی کیسے دے سکتا ہے۔ سکیورٹی کا مسئلہ پوری دنیا کا ہے صرف پاکستان میں یہ ایشو نہیں ہے۔ پاکستان کی اپنی فوج روز جان کی بازی دے رہی ہے۔ انکا کہنا ہے کہ چین والے پاکستان کے سامنے رو لیتے ہیں لیکن پاکستانی کس کے سامنے جا کر روئیں۔ چین کو سوچنا چاہیے کہ چین کی وجہ سے پاکستان ہائبرڈ وار کا حصہ بنا ہے۔ دنیا چین سے انتقام لینے کے لیے پاکستان پر دباؤ بڑھا رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان سے بھی کچھ غلطیاں ہوئی ہیں۔ سی پیک اتھارٹی کے خاتمے کے منفی اثرات سامنے آ رہے ہیں۔ چین نے اعتراض کیا ہے کہ پچھلے سات سالوں میں سی پیک سے متعلق حکومت پاکستان کی جانب سے مستقل لائحہ عمل طے نہیں کیا جا سکا جبکہ بارہا اس کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ حکومت کو سی پیک اتھارٹی ختم نہیں کرنی چاہیے تھی۔‘

سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر سلیمان شاہ کہتے ہیں کہ انرجی معاہدے ’بغیر بڈنگ‘ کے کیے گئے جو کہ ’بڑی کرپشن‘ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ آج یہی بجلی کے منصوبے پاکستان پر بوجھ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ چین جانتا ہے کہ پاکستان ہر مشکل وقت میں اس سے مدد مانگے گا، اس لیے اب چین نے پہلے سے ہی مطالبات شروع کر دیے ہیں۔انکے مطابق چینی انجینئرز اور سٹاف پر ہونے والے حملوں پر بھی چین کو شدید تحفظات ہیں۔ اپریل 2021 اور جولائی 2022 میں چینی شہریوں پر ہونے والے دہشت گرد حملوں کے بعد سی پیک کے مکمل ہونے کی رفتار میں کمی آئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ شنگھائی تعاون تنظیم میں چینی صدر نے وزیراعظم پاکستان سے چینی شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم کے واپسی کے بعد آرمی چیف کو فوراً چین کا دورہ کرنا پڑا۔لیکن اس دورے کے نتیجے میں کوئی بڑا بریک تھرو نہیں ہو سکا۔ ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق چین اپنے مطالبات پر قائم ہے۔

سی پیک اتھارٹی کے سابق سربراہ خالد منصور کے مطابق اگر چینی سرمایہ کاروں کو مطلوبہ سہولتیں دی جائیں تو وہ کام کی رفتار کو بڑھا سکتے ہیں اور سی پیک پر دوبارہ کام تیز ہو سکتا ہے۔ انکے مطابق چینی سرمایہ کاروں کی فائلیں کئی ماہ تک سرکاری دفتروں کے چکر لگاتی رہتی ہیں۔ ون ونڈو آپریشن سے اس مسئلے کا حل نکل سکتا ہے۔ اگر آپ سرمایہ کاروں سے اربوں روپے لگوائیں گے اور پھر انہیں ادائیگیوں اور سہولتوں پر تنگ کریں گے تو سی پیک کیسے مکمل ہو سکتا ہے۔

ماہرین اور سٹیک ہولڈرز کی رائے کے پیش نظر یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ سی پیک کی بنیاد جن شرائط پر رکھی گئی تھی اس کا پاکستان کو فائدے سے زیادہ نقصان ہوا ہے۔ سی پیک ملکی ترقی میں اضافے کی بجائے ملک پر ایک بوجھ بن کے سامنے آ رہا ہے، جس کا وزن پاکستان اٹھا نہیں سکتا اور چین مزید سہارا دینے کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتا۔

Related Articles

Back to top button