کبھی ”ہاسے“ اور کبھی ”آنسو“ کیا شیخ کی سیاست بچا پائیں گے؟

شیخ رشید کو پاکستانی سیاست کا آل راؤنڈر کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ کون سا داؤ پیچ ہے جو انھوں نے نہیں آزمایا؟ ان کی سیاسی زندگی پر نظر دوڑائیں تو کہیں وہ چھکے مارتے نظر آئیں گے اور کہیں گوگلی پھینکتے، یہاں تک کہ بال ٹمپرنگ سے بھی نہیں چوکتے۔ سٹے بازی کے بھی ماہر ہیں، کہیں دو سیاستدانوں یا جماعتوں کو نظریاتی یا مفاداتی جنگ میں الجھتا دیکھ لیں فوراً شرط لگا لیں گے کہ کس کا پلڑا بھاری رہے گا۔ اپنے آپ کو سیاست کا عقلِ کل سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی زبان اکثر پھسل جاتی ہے۔

یہ واحد سیاستدان ہیں جو سیاسی ”لوز ٹاک“ کی وجہ سے ٹی وی اینکرز اور عوام کے ہر دلعزیز ہیں، اینکرز بھی اچھے سے جانتے ہیں کہ کس طرح کل کی خبر بھی شیخ صاحب سے آج ہی اگلوائی جا سکتی ہے اور ان کے اسی ہنر کی وجہ سے لوگ بھی ہمہ تن گوش رہتے ہیں۔ دیکھنے میں بھی یہ کافی جی دار لگتے ہیں یہی وجہ ہے کہ معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ کڑے سے کڑا فقرہ منہ پر کہنے کا حوصلہ رکھتے ہیں لیکن بہت کم لوگ جاتے ہیں کہ شیخ صاحب کا دل بہت چھوٹا ہے اور وہ ذرا سی تکلیف پر بھی بہت جلد گھبرا جاتے ہیں۔ حال ہی میں ہتھکڑی لگائے جانے پر وہ آنسوؤں سے رو پڑے۔دوسری طرف جب وہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں وزیر اطلاعات تھے تو ریما، میرا، ریشم اور کئی دوسری ایکٹریسز کے ساتھ خصوصی ملاقاتوں میں ان کے ”ہاسے“ نہیں رُکتے تھے۔۔ وہ اقتدار میں ہوں یا اپوزیشن میں اپنے مخالفین کی ہنسی اڑانے میں کسی سے کم نہیں۔ہاسہ تو خیر ان کا اس بات پر بھی نہیں رکتا کہ وہ واحد سیاستدان ہیں جنہوں نے سیاسی میدان میں 6 بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہو کر چھکا مارا ہے۔

یوں بھی تہتر سالہ شیخ صاحب اس میدان کے پرانے کھلاڑی ہیں۔ انھوں نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز زمانہء طالب علمی سے کیا تھا۔ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں یہ پہلی بار راولپنڈی سے منتخب ہوئے، شیخ صاحب کی پہچان ن لیگ بنی مگر مشرف دور میں یہ ق لیگ میں شامل ہو گئے۔ 2008 میں انھوں نے اپنی الگ جماعت عوامی مسلم لیگ کی بنیاد رکھی جس کے بعد تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ وہ وقت تھا جو بالآخر سیاست میں شیخ صاحب کی بنیادیں ہلانے کا باعث بنا، اس کے بعد وہ عمران خان کی بیساکھی کے سہارے آگے تو بڑھ گئے لیکن آج تک قدم نہیں جما سکے اور ان کی سیاست ایک ٹی وی چینل سے دوسرے چینل تک ہی محدود ہے۔ تاہم شیخ صاحب نے وزارتوں کا پھل خوب کھایا ہے۔ وہ وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوار، ثقافت، کھیل، اطلاعات، سیاحت، امور نوجوانان، اوورسیز، محنت، ریلوے اور داخلہ رہ چکے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ 1992 میں جب عمران خان کی کپتانی میں پاکستان ورلڈ کپ جیتا تھا تو کھیلوں کے وزیر  شیخ صاحب تھے۔بعد میں انھوں نے نواز شریف اور چودھری شجاعت حسین سے چھٹی کے بعد اقتدار کے ایوانوں میں ”اِن“ رہنے کے لئے عمران خان کا دامن بڑی مہارت سے تھامے رکھا لیکن اب جبکہ عمران خان خود بھی سیاست کے بھنور میں بُری طرح پھنس چکے ہیں، شیخ رشید کو اپنی لڑائی خود ہی لڑنی ہے۔ اگر ہر کسی کے مدعے میں منہ ماری کریں گے تو بھگتیں گے۔ جیسے عمران خان کے ایک الزام پر پیپلز پارٹی کے صدر آصف علی زرداری کو بغیر سوچے سمجھے للکارنا انھیں مہنگا پڑ گیا اور دھر لئے گئے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ایک طویل سیاسی اننگز کھیلنے کے بعد اپنے کیریئر کی اس سٹیج پر وہ دماغ سے کھیلتے ہیں یا جذبات سے کام لیتے ہیں، فی الحال تو وہ لوگوں کو اپنے آنسو دکھا رہے ہیں لیکن انہی لوگوں کو ان کے ہاسے بھی یاد ہیں!!

Related Articles

Back to top button