کشمیر کے نئے وزیراعظم کا اثاثوں میں مسجد کی ملکیت کا دعویٰ


سردارعبدالقیوم نیازی کی جگہ آزاد کشمیر کے نئے وزیراعظم بننے والے ارب پتی بزنس مین سردار تنویر الیاس اسمبلی کے واحد رکن ہیں جنہوں نے اپنے اثاثوں میں ایک مسجد بھی ظاہر کی ہے حالانکہ اللہ کا گھر کسی کی ملکیت نہیں ہو سکتا۔ الیکشن کمیشن کے پاس موجود اراکین آزاد کشمیر اسمبلی کے گوشواروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ سردار تنویر اسمبلی کے امیر ترین رکن ہیں۔ انہوں نے اپنے اثاثوں میں ایک مسجد کو بھی ظاہر کیا ہے جس کی مالیت انہوں نے دو کروڑ روپے ظاہر کی۔ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ کسی امیدوار نے اپنے اثاثوں میں مسجد کو بھی شامل کیا ہو۔
اسلام آباد کے مشہور سینٹورس ٹاور کے مالک سردار تنویر الیاس کا تعلق تحریک انصاف سے ہے اور وہ قانون ساز اسمبلی کے حلقہ ایل اے-15 باغ 2 سے نامزد امیدوار ہیں۔ تنویر الیاس کی جانب سے الیکشن کمیشن میں جمع کروائی گئی پانچ صفحات پر مبنی اثاثوں کی فہرست کے مطابق ان کے ملکیتی اثاثوں کی مجموعی مالیت لگ بھگ سات ارب روپے بنتی ہے۔ ان اثاثوں میں آزاد کشمیر میں جائیدادوں کے علاوہ راولپنڈی اور اسلام آباد کے کئی علاقوں میں کروڑوں روپے مالیت کے فلیٹ، پلاٹ اور دکانیں شامل ہیں جبکہ اسلام آباد کے سب سے بڑے شاپنگ مال سینٹورس میں متعدد فلیٹس اور ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری بھی ظاہر کی گئی ہے۔
جمع کروائی گئی تفصیلات میں ان کی اندرون و بیرون ملک جائیدادوں اوراثاثوں کی مجموعی مالیت ساڑھے سات ارب کے لگ بھگ بتائی گئی ہے، جن میں حیرت انگیز طور پران کے آبائی علاقے راولاکوٹ میں دو کروڑ روپے مالیت کی ایک مسجد بھی شامل ہے، تاہم ان اثاثوں میں بسا اوقات سردار تنویر الیاس کے زیراستعمال رہنے والے ہیلی کاپٹر کا کوئی تذکرہ نہیں۔ سردار تنویر الیاس کی جانب سے مسجد کو ذاتی اثاثوں میں شامل کرنے پر لوگ اسے اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ قرار دے رہے ہیں۔ بعض علما کے بقول تنویر الیاس کی یہ حرکت ’شرعی اور ریاستی قوانین کے خلاف‘ ہے۔ آزاد کشمیر کے معروف عالم دین اور سابق ضلع مفتی میرپور مفتی رویس خان ایوبی نے اس حوالے سے بتایا کہ ’شرعی قانون کے لحاظ سے کوئی شخص مسجد کو ذاتی ملکیت ظاہر نہیں کر سکتا۔ جب کسی زمین پر مسجد تعمیر ہو جائے تو وہ کسی فرد کی ملکیت نہیں رہتی بلکہ وہ مسجد کے لیے وقف ہو جاتی ہے اور اس زمین پر تاقیامت مسجد کے علاوہ دیگر کسی قسم کی تعمیرات نہیں ہو سکتیں۔‘
سوال یہ بھی ہے کہ کیا کوئی شخص مسجد کی تعمیر کے لیے زمین یا سرمایہ فراہم کرنے کے بعد اس پر ملکیت کا دعویٰ کر سکتا ہے؟ اس کا جواب دیتے ہوئے عالم دین مفتی رویس خان ایوبی کا کہنا تھا کہ ’جو شخص مسجد کی تعمیر کے لیے زمین وقف کرتا ہے یا سرمایہ لگاتا ہے وہ اس مسجد کے انتظام و انصرام کی ذمہ داری تو اپنے پاس رکھ سکتا ہے تاہم مسجد یا اس سے منسلک کسی چیز کی ملکیت کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔‘ انہوں نے بتایا کہ ’مسجد اللہ کا گھر ہے اور اس پر کسی شخص کی جانب سے ملکیت کا دعویٰ درست نہیں، اگر ملکیت کا دعویٰ ہو گیا تو پھر وہ مسجد نہ رہی۔ جب ایک چیز آپ کی ملکیت میں نہیں تو آپ اس کو اثاثوں یا ٹیکس گوشواروں میں کیسے ظاہر کر سکتے ہیں۔
سردار تنویر الیاس کے میڈیا کوارڈینٹر یاسرعارف کے مطابق راولاکوٹ میں جو مسجد تعمیر کی گئی ہے اس کے تعمیراتی اخراجات سردار تنویر الیاس خان کے اکاؤنٹ سے ادا کیے گئے ہیں جن کی تفصیل ان کے اثاثہ جات میں درج کی گئی ہے۔‘ تاہم انہوں نے اس حوالے سے مزید تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔ دوسری جانب ضلع مفتی مظفرآباد مفتی خطیب الرحمان نے اس بارے میں بتایا کہ مسجد کے حوالے سے شرعی قوانین بالکل واضح ہیں تاہم ریاستی قوانین میں زیادہ وضاحت نہیں۔ ان کے مطابق مساجد کی رجسٹریشن اور دیگر معاملات کی دیکھ بھال کرنے والا محکمہ امور دینیہ کسی بھی مسجد کی رجسٹریشن سے قبل یہ یقینی بناتا ہے کہ جس زمین پر مسجد تعمیر کی گئی وہ کسی شخص کی ملکیت نہیں بلکہ مسجد وقف ہو اور اس کے انتظامات کی دیکھ بھال کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہو۔ انہوں نے بتایا کہ ’مسجد کی رجسٹریشن سے قبل محکمہ مال تصدیق کرتا ہے کہ اس زمین پر کسی کا دعویٰ ملکیت نہیں بلکہ یہ زمین وقف شدہ ہے اور محکمہ پولیس تصدیق کرتا ہے کہ اس مسجد کی تعمیر کسی قسم کے انتشار کا باعث نہیں بنے گی۔ اس کے بعد ہی محکمہ امور دینیہ مسجد کو رجسٹریشن سرٹیفکیٹ جاری کرتا ہے۔‘
یاد رہے کہ سردار تنویر الیاس کا تعلق آزاد کشمیر کے ضلع پونچھ کے علاقے بنگوئیں سے ہے۔ ان کے والد سردار الیاس سعودی عرب کے معروف کاروباری گروپ ’تمیمی‘ کے چیئرمین ہیں۔ ان کے چچا سردار صغیر چغتائی پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں رکن تھے اور پچھلے برس آزاد پتن کے قریب حادثے میں گزر گئے تھے۔ ان کا نام پہلی مرتبہ تب سامنے آیا جب اسلام آباد کے سب سے بڑے شاپنگ مال سینٹورس کی تعمیر شروع ہوئی۔
گزشتہ چند سالوں سے ان کی سیاست میں دلچسپی پیدا ہوئی اور انہوں نے عمران اور اسٹیبلشمنٹ سے قربت بڑھانا شروع کی۔ 2018 میں انہوں نے سینیٹ کے انتخابات میں پی ٹی آئی کا ٹکٹ حاصل کرنے کی کوشش کی تاہم وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ 2018 ہی میں انہیں پنجاب کی نگران کابینہ کا حصہ بنایا گیا۔ پنجاب میں پی ٹی آئی حکومت کے قیام کے بعد انہیں پہلے سرمایہ کاری بورڈ کا چیئرمین مقرر کیا گیا اور پھر وہ وزیراعلیٰ پنجاب کے معاون خصوصی مقرر ہوئے۔
انہوں نے کشمیر کی سیاست میں دلچسپی لینا شروع کی اور تحریک انصاف کے مقامی صدر بیرسٹر سلطان کے ساتھ اختلافات کی بنا پر کئی تنازعات کا شکار ہوئے۔ سیاسی دوروں کے لیے ہیلی کاپٹر کے استعمال اور دوسری جماعتوں سے ’الیکٹ ایبلز‘ توڑ کر پی ٹی آئی میں شامل کرنے کے باعث وہ ’ہیلی کاپٹر بابو‘ اور ’کشمیر کے ترین‘ کے نام سے بھی مشہور ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ عبدالقیوم نیازی کو ہٹا کر انہیں نیا وزیراعظم بنانے کی بنیادی وجہ ان کا سرمایہ ہے جس کی عمران خان کو اقتدارسے نکلنے کے بعد کافی زیادہ ضرورت میں محسوس ہو رہی ہے۔

Related Articles

Back to top button