کیا جنرل باجوہ کو ایک مرتبہ پھر توسیع ملنے والی ہے؟

سینئر صحافی اور تجزیہ کار نجم سیٹھی نے کہا ہے کہ نہ تو عمران خان پی ڈی ایم کی حکومت گرانے میں کامیاب ہوں گے اور نہ ہی مرضی کا آرمی چیف لگا پائیں گے، انہیں بھی اس حقیقت کا ادراک ہو چکا ہے اور اسی لیے وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ مایوس ہوتے جا رہے ہیں اور ان کی جھنجھلاہٹ میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے، اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں نجم سیٹھی کہتے ہیں کہ عمران خان جان چکے ہیں کہ شریف اور زرداری کہیں نہیں جا رہے اور اس حوالے سے انہیں کچھ واضح اشارے بھی مل چکے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ حال ہی میں لیک ہونے والی آڈیو ریکارڈنگز غالباً کسی مقامی انٹیلی جنس ایجنسی سے کی تھیں جن کا ہدف اہم سیاسی افرا د تھے، قیاس ہے کہ اس نے پیگاسس Pagasus جیسا کوئی جدید سافٹ ویئر استعمال کیا ہوگا جو ان کے سمارٹ فونز میں سرائیت کر کے ان کی گفتگو کو ایک الیکٹرانک بگ کی طرح ریکارڈ کر سکتا تھا، کسی مرحلے پر اس مواد کا کچھ حصہ کسی انسائیڈر یا کسی ہیکر نے چرا لیا جس کی وابستگی عمران خان کے ساتھ تھی۔

نجم سیٹھی کہتے ہیں کہ عمران نے اس منتخب شدہ مواد کو اپنے دشمنوں اور مخالفوں کے خلاف استعمال کرتے ہوئے شہباز شریف کی گفتگو کی ریکارڈنگز لیک کروا دیں، اس حرکت کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ اپنے ”چور مخالف“ اور ”امریکہ مخالف“ بیانیے کو توانا کیا جا سکے اور سیاسی طاقت کی لگام دوبارہ اُن کے ہاتھ میں آ جائے۔تاہم ان ریکارڈنگز میں کوئی ایسی قابل ذکر بات نہیں تھی جس سے عمران کے مخالفین کا کوئی بڑا نقصان ہو سکے۔ لیکن ان ریکارڈنگز کے ردعمل میں آنے والی آڈیو لیکس نے عمران خان کے امریکہ مخالف بیانیے کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی ہیں۔ عمران اور ان کے پرنسپل سیکرٹری، اعظم خان کی آڈیوز نے ثابت کردیا ہے کہ پاکستانی سفیر اسد مجید خان کے لکھے ہوئے خط کو سیاسی مفادات کی خاطر امریکی دھمکی آمیز خط قرار دینے کی سازش تیار کی گئی۔

نجم سیٹھی کہتے ہیں کہ ظاہر ہے کہ ہم نے ابھی اس مواد کا بہت کم حصہ سنا ہے جو طرفین کے توشہ خانے میں موجود ہے۔ لیکن ایک بات یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ عمران خان خفیہ ایجنسی کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ عمران کے پاس اتنا تباہ کن مواد موجود نہیں ہو سکتا جتنا کہ خفیہ ایجنسی کے پاس موجود ہوتا ہے لیکن اب جب کہ عمران خان لاڈلے نہیں رہے، ہمیں توقع ہے کہ راز فاش ہونے کی جنگ میں تنزی آئے گی یا پھر مشترکہ تباہی کا خوف اس میں تعطل بھی لاسکتا ہے۔ یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اگر قومی سلامتی کمیٹی کے ذریعے خفیہ ایجنسیوں کو لیک ہونے والی ریکارڈنگز کا نیٹ ورک ڈھونڈنے کی ذمہ داری سونپی گئی تو کچھ بھی سامنے نہیں آئے گا، درحقیقت عمران خان کو فائدہ پہنچانے کے لیے آڈیوز لیک کرنے والا ڈارک ویب کا جاسوس اچانک اتا پتا بتائے بغیر غائب ہوگیا ہے۔ لہٰذا یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ طاقت ور خفیہ ایجنسی نے کامیابی سے عمران خان کو ایک اور سرخ لکیر عبور کرنے سے روک دیا ہے۔

لیکن نجم سیٹھی کہتے ہیں کہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عمران خان ہر گزرتے دن کے ساتھ مایوس ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ وہ جان چکے ہیں کہ شریف اور زرداری کہیں نہیں جا رہے۔ حال ہی میں ترمیم شدہ نیب قانون کے نفاذ کے بعد مسلم لیگ ن کے سرکردہ رہنماؤں کے خلاف نیب کیسز واپس لے لیے گئے ہیں یا ختم کر دیئے گئے ہیں۔ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار دوبارہ وزارت خزانہ چلانے کے لیے جلاوطنی ختم کرکے واپس آ چکے ہیں۔ ایون فیلڈ کیس میں احتساب عدالت کی جانب سے مریم نواز شریف اور ان کے شوہر کو سنائی گئی سزا کو لاہور ہائی کورٹ نے 4 سال تک سرد خانے میں پڑے رہنے کے بعد کالعدم قرار دے دیا ہے۔ مریم کو اپنے والد کے پاس لندن جانے کے لیے پاسپورٹ واپس مل گیا ہے اور پی ڈی ایم پنجاب پر دوبارہ قبضہ کرنے اور اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے تیار ہے۔

نجم سیٹھی کہتے ہیں کہ اس صورتحال میں عمران خان کے پاس دو آپشنز ہیں۔ وہ یا تو لانگ مارچ کریں اور حکومت کا محاصرہ کرکے اسے اقتدار سے نکال باہر کریں لیکن اگر وہ اس جارحانہ راستے کا انتخاب کرتے ہیں تو رانا ثناء اللہ کی 50 ہزار پولیس اور رینجرز کی مضبوط فورس ان کے سامنے کھڑی ہوگی، حالات گھمبیر ہو جائیں گے۔ اس افراتفری اور تشدد سے صرف تیسری قوت ہی فائدہ اٹھا سکتی ہے جسکا حکومت اور اپوزیشن دونوں کو نقصان ہوگا۔ عمران کے لیے دوسری آپشن یہ ہے کہ وہ طاقت کے آئینی کھیل میں واپس آنے کی شرائط پر گفت و شنید کریں۔ ان کی جانب سے اگلے انتخابات کے شیڈول پر بات چیت کے لیے پارلیمنٹ میں واپس جانے کی مشروط رضامندی سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بھی واپسی کا کوئی بہانہ ڈھونڈ رہے ہیں۔

نجم سیٹھی کا کہنا ہے کہ 29 نومبر 2022 کو جنرل قمر باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے حوالے سے پھیلنے والی افواہیں صورت حال کے الجھاؤ کو مزید گہرا کر رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ مدت ملازمت میں توسیع چاہتے ہیں اور کیا وہ توسیع حاصل کرلیں گے؟ اس برس اپریل میں فوجی ترجمان نے واضح طور پر اعلان کیا تھا کہ وہ ایسا نہیں کریں گے لیکن جنرل قمر باوجوہ کا مصروف شیڈول، امریکہ سے فوجی رسد پر مذاکرات، پاکستان کی مالی اعانت کے لیے قطریوں اور سعودیوں کو قائل کرنا، امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے کہنا کہ وہ آئی ایم ایف سے نرمی کا کہیں، یہ تمام واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ وہ ابھی کہیں نہیں جا رہے۔

لیکن یہ ایشو شریفوں اور زرداریوں کی اقتدار میں رہنے کی حکمت عملی اور منصوبہ بندی کے حوالے سے بھی اہم ہے۔ وہ اگلے برس ہونے والے انتخابات کے لیے مساوی میدان چاہتے ہیں۔ تاثر ہے کہ موجودہ قیادت نے ان کے ساتھ اس کا وعدہ کیا تھا۔لیکن اسی لیے تو عمران اُنھیں چلتا کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ اپنی مرضی کا آرمی چیف مقرر کرسکیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ رواں برس جلدی سے انتخابات ہوجائیں، یہ ابہام اس حقیقت کے پیش نظر مزید گہرا ہوگیا ہے کہ عمران خان آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی؛ یعنی مسٹر ایکس اور مسٹر وائی کو سرعام تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں اور ان دونوں پر نیوٹرل رہنے کا الزام لگا رہے ہیں۔

نجم سیٹھی کہتے ہیں کہ اکتوبر اور نومبر کے مہینوں میں خبروں کے متلاشی میڈیا کا دستر خوان بھر جائے گا۔ اگر ہم کھل کر بات کرتے ہوئے پیش گوئی کر گزریں تو کہنے کی اجازت دیجئے کہ عمران خان سرد و گرم بیان بازی جاری رکھیں گے لیکن وہ حکومت نہیں گرا سکیں گے، درحقیقت اس بات کا بھی امکان اپنی جگہ پر موجود ہے کہ پس پردہ کوئی سمجھوتا بھی ہو سکتا ہے جس کی رو سے وزیر اعظم شہباز شریف چیف آف آرمی سٹاف کو نامزد کردیں، یا جنرل باجوہ کو ہی توسیع دے دیں، لیکن ایسا تب ہوگا جب تحریک انصاف قومی اسمبلی میں واپس آجائے اور جب آئین کے مطابق اگلے برس کے اختتام پر تازہ عام انتخابات ہوں گے۔

Related Articles

Back to top button