کیا خفیہ رائے شماری میں گیلانی کی جیت اب یقینی ہے؟


سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے حکومت کی خواہش کے برخلاف 3 مارچ کو اوپن بیلٹ کے ذریعے ہی سینیٹ الیکشن کروانے کا فیصلہ آنے کے بعد کپتان اینڈ کمپنی کی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہوگیا ہے اور اسکے ہاتھ پاؤں پھول گئے ہیں۔
خفیہ رائے شماری کے ذریعے سینیٹ انتخابات کے انعقاد کے عدالتی فیصلے کے بعد اپوزیشن اتحاد کا کہنا ہے کہ حکومتی امیدوار حفیظ شیخ کے مقابلے میں اب یوسف رضا گیلانی ہی اسلام آباد کی جنرل نشست پر سینیٹ کے رکن منتخب ہوں گے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومتی امیدوار کے مقابلے میں یوسف رضا گیلانی کی ممکنہ جیت کی صورت میں چیئرمین سینیٹ، سپیکر قومی اسمبلی اور وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحاریک لائی جائیں گی جن کا نتیجہ عمران خان کے اقتدار کے خاتمے کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے۔ واضح رہے کہ سینیٹ کے 3 مارچ کو ہونے والے انتخابات کو اوپن بیلٹ سے کرانے کے لیے صدر مملکت نے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ سے رائے مانگی تھی۔ ریفرنس میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ آئینی ترمیم کے بغیر الیکشن ایکٹ میں ترمیم کرنے کے لیے رائے دی جائے۔ اس صدارتی ریفرنس میں کہا گیا تھا کہ ہارس ٹریڈنگ کے زمانے میں خفیہ انتخاب سے الیکشن کی شفافیت متاثر ہوتی ہے اس لیے سینیٹ کے انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے منعقد کرانے کا آئینی و قانونی راستہ نکالا جائے۔ صدر کی جانب سے عدالت عظمیٰ کو بھیجے گئے ریفرنس پر پہلی سماعت 4 جنوری 2021 کو ہوئی تھی، جس کے بعد فروری سے اس پر روزانہ کی بنیاد پر سماعتیں ہوئی تھیں اور 25 فروری کو فیصلہ محفوظ کیا گیا جسے یکم مارچ کو سنا دیا گیا جس کے بعد اوپن بیلٹ کے ذریعے سینیٹ انتخاب منعقد کروانے کی حکومتی امیدوں پر پانی پھر گیا ہے۔ عدالتی رائے میں کہا گیا ہے کہ اگر سینیٹ الیکشن کا طریقہ کار بدل کر اوپن بیلٹ کا سسٹم لانا ہے تو اس کے لیے آئینی ترمیم درکار ہے جو کہ صرف پارلیمنٹ کر سکتی ہے لہذا 3 مارچ کو سینٹ کا الیکشن آئین کی رو سے خفیہ رائے شماری کے اصول ہر ہی ہوگا۔
بدھ 3 مارچ کو ہونے والے سینیٹ انتخابات میں سب سے اہم اور دلچسپ مقابلہ قومی اسمبلی میں ہونے جا رہا ہے، جہاں سابق وزیر اعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیئر لیڈر یوسف رضا گیلانی اور وفاقی وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ وفاقی دارالحکومت کی واحد جنرل نشست کے لیے نبرد آزما ہوں گے۔ سابق وزیر اعظم گیلانی کو، جو قومی اسمبلی کے سپیکر اور وفاقی وزیر بھی رہ چکے ہیں، اپوزیشن اتحاد پاکستان جمہوری تحریک کی مکمل حمایت حاصل ہے جبکہ عبدالحفیظ شیخ کے ساتھ تحریک انصاف اور اس کے اتحادی کھڑے ہیں۔ ھکومت کا دعوی ہے کہ اسلام آباد سے سینیٹ نشست کے الیکٹورل کالج یعنی قومی اسمبلی میں حکومتی اتحاد کی اکثریت ہے اور عبدالحفیظ شیخ آسانی سے یہ الیکشن جیت جائیں گے۔ تاہم سینیٹ انتخابات اور پس منظر میں ہونے والے سیاسی داؤ پیچ سے باخبر ذرائع گیلانی کی جیت کو یقینی قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یوسف رضا گیلانی کو حفیظ شیخ کو ہرانے کے لیے حکومتی سائیڈ سے صرف دس ووٹ لینے کی ضرورت ہے جو ان کے لئے کوئی مشکل کام نہیں۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے خیال میں صورتحال کی سنگینی کا اندازہ وزیراعظم عمران خان خود بھی لگا چکے ہیں اور وہ اسی وجہ سے ذاتی طور پر امپورٹڈ حفیظ شیخ کے لیے اراکین قومی اسمبلی سے ووٹ مانگ رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کی جانب سے سینیٹ الیکشن خفیہ رائے شماری کے تحت کروانے کے فیصلے کے بعد حکومت کی نیندیں حرام ہوگئی ہیں کیونکہ اب ناراض حکومتی اراکین اور اتحادی ایم این ایز بلا خوف اپنے ووٹ اپوزیشن امیدواروں کو دے سکتے ہیں۔
اکثر تجزیہ کاروں کی نظر میں اسلام آباد سے سینیٹ کی جنرل سیٹ کا معاملہ اس لئے بہت اہم ہے کہ اس الیکشن کا براہ راست تعلق قومی اسمبلی میں حکومتی اور اپوزیشن بینچز پر بیٹھے اراکین سے ہے یعنیٰ جس دھڑے کے ایم این ایز زیادہ ہیں اسی کا امیدوار جیتے گا۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن آصف علی زرداری کا گیلانی کو میدان میں اتارنا دراصل ایک بڑے گیم پلان کا حصہ ہے جس کا نتیجہ وزیر اعظم عمران خان کی چھٹی کی صورت میں نکل سکتا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تین مارچ کو ہونے والے الیکشن میں دونوں سیاسی حریفوں کے ہائی سٹیکس شامل ہیں اور اس ایک نشست پر کسی ایک کی شکست دراصل ھکومتی یا اپوزیشن کے بیانیے ک ہار تصور۔کی جائے گی۔ ہ کا جا رہانیے کہ گیلانی کی ہار پی ڈی ایم کی شکست اور عبدالحفیظ شیخ کی کامیابی وزیر اعظم عمران خان کے حق میں اعتماد کا ووٹ ثابت ہو گی۔ لہذا اس ایک نشست پر جیت یا ہار اپوزیشن اور حکومت کے مستقبل کا تعین کرے گی کیونکہ گیلانی کی جیت کے معنیٰ وزیر اعظم عمران خان کے خلاف ایک طرح سے عدم اعتماد کے ہوں گے۔
واضح رہے کہ اسلام آباد سے سینیٹ کی کسی بھی نشست کے لیے صرف قومی اسمبلی کے اراکین یعنی ایم این ایز ووٹ ڈالتے ہیں، جہاں صوبائی اسمبلیوں کے برعکس ہر ایم این اے کا ایک ووٹ ہوتا ہے اور الیکشن کے دن ایوان میں موجود زیادہ اراکین کی حمایت یعنی زیادہ ووٹ حاصل کرنے والا امیدوار کامیاب قرار پاتا ہے۔ قومی اسمبلی میں حکومتی ایم این ایز 180 اور اپوزیشن کے 160 ہیں۔ سینیٹ انتخابات میں قومی اسمبلی کے تمام 340 اراکین کے ووٹ کا حق استعمال کرنے کی صورت میں 171 ووٹ حاصل کرنے والا امیدوار جیت کا حق دار ہو گا جبکہ کم ووٹ ڈالے جانے کی صورت میں بھی سادہ اکثریت ہی کامیابی کا راستہ بنے گی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان حالات میں یوسف رضا گیلانی کیسے جیت سکتے ہیں؟ واضح رہے کہ سید یوسف رضا گیلانی اسی کی دہائی سے عملی سیاست میں فعال ہیں، جس کے باعث ان کے اکثر سیاسی جماعتوں میں تعلقات ہیں جبکہ وہ وزیر اعظم، سپیکر قومی اسمبلی اور وفاقی وزیر جیسے اہم عہدوں پر بھی فائز رہ چکے ہیں۔ گیلانی اچھے مزاج کے دوست پرور انسان ہیں، انہوں نے کبھی کوئی دشمنی نہیں بنائی اور یہی ان کا پلس پوائنٹ ہے۔ سیاسی اثر رسوخ کے علاوہ جنوبی پنجاب کے معروف سید خاندان سے ہونے کی وجہ سے بھی ان کی عزت اور احترام کیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ گیلانی کی دوسری سیاسی جماعتوں کے بعض رہنماؤں کے ساتھ رشتہ داریاں بھی ہیں، جس کا انہیں سینیٹ انتخابات میں فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ وہ موجودہ پیر آف پگاڑا پیر صبغت اللہ شاہ راشدی کے خالہ زاد بھائی ہونے کے علاوہ ان کے چھوٹے بھائی پیر صدر الدین شاہ کے سمدھی بھی ہیں۔ یاد رہے کہ پیر آف پگاڑا سندھ سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتوں کے اتحاد گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے روحِ رواں ہیں اور جی ڈی اے کے قومی اسمبلی میں تین ایم این ایز ہیں۔ اسی طرح تحریک انصاف کے ناراض مگر اہم رہنما جہانگیر خان ترین کی بیگم گیلانی کی ماموں زاد بہن ہیں جبکہ بہاولپور سے تحریک انصاف ہی کے رکن قومی اسمبلی مخدوم سمیع الحسن گیلانی بھی ان کے عزیز ہیں۔ وہ راولپنڈی کے مشہور پیر آف گولڑہ شریف کے بھی عزیز ہیں، جبکہ اٹک کے پیر آف مکھڈ، جو سابق صدر ایوب خان کے بھی پیر تھے، سے بھی یوسف رضا گیلانی کی رشتہ داری ہے۔
ایک اور اہم فیکٹر یہ ہے پی پی پی کے کئی سیاستدان جو اس وقت تحریک انصاف کے ٹکٹ پر ایم این ایز ہیں، وہ حکومت کی مقبولیت کا گراف نیچے گرنے کی وجہ سے آئندہ عام انتخابات میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ کی خواہش رکھتے ہیں۔ ایسے ایم این ایز مسلم لیگ ن کے کہنے پر گیلانی کو سینیٹ انتخابات میں ووٹ دے سکتے ہیں جبکہ بلوچستان سے بھی حکومتی اتحاد سے تعلق رکھنے والے بعض ایم این ایز کے ووٹوں کا اپوزیشن کے امیدوار کی طرف جانے کا امکان ہے۔
یاد رہے کہ جب یوسف رضا گیلانی ملک کے وزیر اعظم تھے تو پاکستان مسلم لیگ قائد اعظم کے رہنما اور سپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہیٰ ان کے ڈپٹی وزیر اعظم تھے جبکہ پیپلز پارٹی سے ناراض ہو کر پی ٹی آئی جانے والے کئی اراکین قومی اسمبلی کے ساتھ بھی گیلانی کے اچھے مراسم بتائے جاتے ہیں۔اس کے علاوہ جی ڈی اے اور ایم کیو ایم پاکستان بھی تحریک انصاف سے ناراض لگتے ہیں، جس کا بڑا ثبوت ہفتے کو پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم پاکستان کے درمیان سینیٹ انتخابات سے متعلق معاہدے ہے۔ اعدادوشمار کی روشنی میں آئندہ کی صورتحال کا اندازہ لگایا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ یوسف رضا گیلانی کو اسلام آباد کی جنرل سیٹ حاصل کرنے کے لیے اپوزیشن کے ووٹوں کے علاوہ صرف 11 ووٹوں کی ضرورت ہے جو وہ آسانی سے حاصل کر سکتے ہیں جبکہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے معاہدے کے نتیجے میں آخرالذکر کے سات ووٹ بھی ادھر آگئے تو گیلانی کامیابی سے صرف چار ووٹ دور ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button