کیا سیالکوٹ واقعے سے ہم GSP پلس سٹیٹس کھونے والے ہیں؟


سری لنکن فیکٹری مینجر پریانتھا کمارا کے اندوہناک قتل کے بعد یورپی یونین نے پاکستان میں توہین مذہب کے قانون کے غلط استعمال پر سخت ردعمل دیا یے جس کے بعد پاکستان سے ترجیحی تجارت کے معاہدے جی ایس پی پلس کی تجدید نہ ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ یورپی یونین نے پاکستان میں انسانی حقوق کی ابتر صورتِ حال خاص طور پر سزائے موت اور توہینِ مذہب قانون کے غلط استعمال پر سال میں دوسری مرتبہ سخت تشویش کا اظہار کیا ہے، لہذا پاکستان کو یورپین یونین سے ملنے والے جی ایس پی پلس سٹیٹس کے حوالے سے ایک بار بحث شروع ہوگئی اور اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ سیالکوٹ جیسے واقعات کی بنا پر اگر یہ سٹیٹس چھن گیا تو پاکستان کی یورپ کے ساتھ چار ارب ڈالرز کی برآمدات بھی ختم ہو جائیں گی۔

یورپی یونین کی جانب سے حالیہ تشویش کا اظہار پاکستان اور یورپی یونین کے درمیان 7 دسمبر کو بیلجیم میں چھٹے اسٹریٹجک ڈائیلاگ کے بعد جاری ہونے والے ایک مشترکہ اعلامیہ میں کیا گیا ہے۔ یورپی یونین کے خارجہ امور کے اعلیٰ عہدیدار جوزف بوریل اور پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے مشترکہ طور پر اس اجلاس کی صدارت کی۔ خیال رہے کہ یورپی یونین نے پاکستان مین توہینِ مذہب کے قانون کے مبینہ طور پر غلط استعمال سے متعلق اپنی تشویش کا اعادہ ایک ایسے وقت کیا ہے جب حال ہی میں سیالکوٹ شہر میں ایک مقامی فیکٹری میں کام کرنے والے سری لنکن شہری پریانتھا کمارا کو توہینِ مذہب کے الزام میں مشتعل ہجوم نے تشدد کر کے ہلاک کرنے کے بعد اس کی لاش کو جلا دیا تھا۔ اس واقعے پر ہر طبقۂ فکر کی طرف سے شدید مذمت کے ساتھ متنبہ کیا جا رہا ہے کہ ایسے واقعات سے پاکستانی معاشرہ عدم تحفظ کا شکار ہو جائے گا۔

دوسری جانب وزیرِ خارجہ نے دورۂ بیلجیم کے دوران تسلیم کیا ہے کہ یہ واقعہ پاکستان کے لیے بین الاقوامی ندامت کا باعث بنا ہے۔ یاد رہے کہ یورپی یونین کی طرف سے پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتِ حال اور توہینِ مذہب کے غلط استعمال بارے تشویش سے پہلے نومبر کے اوائل میں پاکستان کا دوررہ کرنے والے پارلیمان وفد نے بھی متنبہ کیا تھا کہ اگر پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتِ حال بہتر نہ ہوئی تو ادے حاصل تجارتی مراعات پر مبنی جی ایس پی پلس اسٹیٹس کی تجدید کا امکان ختم ہو جائے گا۔

یورپی یونین کی طرف سے پاکستان سمیت دیگر متعدد ترقی پذیر ممالک کے لیے جی ایس پی پلس کے تحت ان ممالک کے لیے لازم ہے کہ وہ انسانی حقوق، گڈ گورننس اور ماحولیاتی تحفظ سے متعلق 27 بین الاقوامی کنونشنز کی پاسداری کریں۔
یاد رہے کہ پاکستان میں توہینِ مذہب کے غلط استعمال پر یورپی یونین اور انسانی حقوق کی تنظیمیں لمبے عرصے سے تشویش کا اظہار کرتی آ رہی ہے۔ معاشی ماہرین کی جانب سے اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ سیالکوٹ جیسے واقعات پاکستان کی معیشت اور برآمدات کے لیے بھی ںقصان دہ ہیں۔ آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل شاہد ستار کے بقول سیالکوٹ واقعہ پاکستان میں معاشرتی انحطاط کا مظہر ہے۔ان کے بقول اگر ایسے واقعات کا تدارک نہ کیا گیا اس کے نتیجے پاکستان کی ساکھ اور برآمدات پر منفی اثر پڑ سکتا ہے اور پاکستان کا جی ایس پی پلس اسٹیٹس کی تجدید کا معاملہ مشکل ہو سکتا ہے۔

ان کے بقول اگر جی ایس پی پلس کی ترجیحی تجارتی سہولت ختم ہو جائے گی تو یورپی یونین کی پاکستان برآمدات میں ںمایاں کمی ہو سکتی ہے۔ شاہد ستار کا کہنا ہے کہ پاکستان یورپی یونین کو سالانہ چھ سے سات ارب ڈالرز کی ٹیکسٹائل مصنوعات برآمد کرتا ہے اور اگر جی ایس پی کی سہولت ختم ہو جاتی ہے ان کے بقول پاکستان کی یورپی یونین کو برآمدات میں تین سے چار ارب ڈالر کی کمی ہو سکتی ہے۔ شاہد ستار نے کہا کہ سیالکوٹ واقعے کے بعد یورپی یونین کے کاروباری افراد نے سیالکوٹ کے دورے منسوخ کر دیے ہیں اور اگر مستقبل قریب میں یہ دورے دوبارہ شروع نہ ہوئے تو ان کے بقول شاید پاکستان کی ٹیکسٹائل مصنوعات کی خریداری کے لیے نئے آرڈرز میں کمی ہو سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اومی کرون وائرس کی آمد نے خوف کی فضا پیدا کر دی
شاید ستار نے سیالکوٹ جیسے واقعات روکنے کے لیے وزیرِ اعظم کے عزم کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ شاہد ستار نے کہا کہ پاکستان میں گزشتہ ایک برس کے دوران ٹیکسٹائل شعبوں میں 100 نئے یونٹ قائم کیے ہیں اور ان کی وجہ سے پاکستان کی برآمدات میں چھ ارب ڈالزر کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس لیے پاکستان کے یورپی یونین کا ترجیحی تجارت کا سہولت کا برقرار رہنا ضروری ہے۔

Related Articles

Back to top button